سنگاپور کے بانی رہنما پر مقامی مسلمانوں کی برہمی
1 فروری 2011سنگاپور کے بانی رہنما Lee Kuan Yew نے کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کی پارسائی معاشرے میں ان کے مکمل انضمام کی راہ میں حائل ہے۔ ان کا یہ بیان متنازعہ حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
انہوں نے یہ بات اپنی کتاب ’ہارڈ ٹُرتھ ٹو کیپ سنگاپور گواِنگ‘ میں کہی۔ لِی کو ویسے ہی ایک بے باک رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس کتاب میں انہوں نے اپنے ہاں بین اللسانی صورت حال کو موضوع بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’اسلام کا اثر بڑھنے سے پہلے تک ہم بہت اچھی طرح ترقی کر رہے تھے۔‘
لِی نے لکھا، ’دیگر کمیونٹیز مسلمانوں کے مقابلے میں معاشرے میں بہت آسانی سے ضم ہو رہی ہیں‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں، ’آج، اسلام کے علاوہ ہم تمام مذاہب اور نسلوں کو اپنے معاشرے کا حصہ بنا سکتے ہیں‘۔
تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سماجی لحاظ سے مسلمان کوئی مسئلہ توکھڑا نہیں کرتے لیکن وہ بہت مختلف اور علیٰحدہ ہیں۔
سنگاپور ایک جزیرے پر مشتمل ریاست ہے، جس کی آبادی 50 لاکھ ہے۔ اکثریت چینی نژاد باشندوں کی ہے۔ شہریوں کے انضمام کو یقینی بنانے کے لیے لِی نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اسلامی طریقہء کار پر عملدرآمد کی شدت کو کم کریں۔
سنگاپور کے بانی رہنما کے ان بیانات نے وہاں کے مسلمانوں کو ناراض کر دیا ہے۔ مقامی انٹرنیٹ فورمز پر تو اس پر سخت ردِ عمل بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ایسے ہی ایک فورم پر ایک بیان میں لِی کو اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے، ’آپ یا آپ کے خاندان کے لوگ کس کی عبادت کرتے ہیں اور آپ کیا کھاتے ہیں، کیا پیتے ہیں، یہ آپ کا فعل ہے اور ہم مسلمان اس پر بات نہیں کرتے‘۔
دوسری جانب سنگاپور میں ایسوسی ایشن آف مسلمز نے ایک بیان میں لِی کے ان بیانات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مسلم کمیونٹی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
لِی کی عمر 87 برس ہے اور وہ سنگاپور کے وزیر اعظم Lee Hsien Loong کے والد ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی