سی پیک کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ملتوی: کیا چین ناراض ہے؟
16 جولائی 2021پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سنٹر کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ بیجنگ اس حملے پر چراغ پا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "چین کی طرف سے اس اجلاس کو ملتوی کیا جانا غصے کی عکاسی کرتا ہے۔ سرفراز خان کے خیال میں بیجنگ کو تحفظات ہونگے کہ دہشت گرد وزیرستان، گلگت بلتستان اور دوسری مختلف جگہوں پر ری گروپ ہو رہے ہیں جن کا تعلق ہیں ٹی ٹی پی سے ہے اور یہ چینی مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘
بلوچستان: چینی ٹرالرز کی ماہی گیری پر مقامی آبادی کے تحفظات
سی پیک کو خطرہ
ڈاکٹر سرفراز کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے حملے جاری رہے تو سی پیک کی رفتار کم ہی نہیں ہوگی بلکہ یہ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ " سی پیک کے پروجیکٹس پہلے ہی بہت سست رفتاری کا شکار ہیں اور گزشتہ تین سال میں ان پروجیکٹس پر بہت کم کام ہوا ہے اگر اسی طرح کے دہشت گردانہ حملے مزید ہوئے تو سی پیک پروجیکٹس کی رفتار کم نہیں ہوگی بلکہ یہ کافی حد تک مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے اور اس سے فائدہ پاکستان میں ان عناصر کو ہوگا جو چین کے مقابلے میں امریکہ سے پاکستان کے تعلقات بہتر چاہتے ہیں اور جن کے مفادات امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘
سی پیک پروجیکٹس کی رفتار سست ہو سکتی ہے
معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں ان حملوں پر چین چراغ پہ نہیں ہے لیکن یقین وہ چاہے گا کہ ان حملوں کی شفاف تحقیقات ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ان حملوں کی وجہ سے سی پیک پروجیکٹس ختم نہیں ہوں گے لیکن ان کی رفتار کم ہو جائے گی کیونکہ سکیورٹی ایک بہت بڑا ایشو ہے۔ خصوصی طور پر ریلوے کے پروجیکٹس کو وقت پر تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل ہو جائے گا کیونکہ گراؤنڈ پر چائنیز انجینئرز کو کام کرنا پڑے گا اور ان کی سکیورٹی کو اب بہت خطرات ہیں‘‘
سی پیک کا سب سے مہنگا منصوبہ سست روی کا شکار
کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کو افغانستان میں کھلا ہاتھ دے دیا ہے، جو ٹی ٹی پی کی مدد کر سکتے ہیں اور مغربی چینی صوبے میں بھی چین کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔
رفتار سست نہیں ہوگی
تاہم نیشنل پارٹی کے رہنما اور ترجمان سابق ترجمان بلوچستان حکومت جان محمد بلیدی کا خیال رہے کہ چین سی پیک کے پروجیکٹس کی رفتار کم نہیں کرے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "چین معاشی ترقی چاہتا ہے اور اس کے لیے اس کی سرمایہ کاری بہت اہم ہے۔ ماضی میں بھی ان پر کئی حملے ہوئے جیسے بلوچستان میں خودکش حملے ہوئے، گوادر کے ہوٹل پر حملہ ہوا، چینی قونصلیٹ پر حملہ ہوا، اسٹاک ایکسچینج میں حملہ ہوا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے کام جاری رکھے اور اب بھی وہ سی پیک کے پروجیکٹس جاری رکھیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں معاشی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کو بچانا بہت ضروری ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین چیزوں کو بڑی گہرائی میں دیکھتا ہے اور ان کی کمیونسٹ پارٹی تجزیہ کرتی ہے اور اگر ان کو کوئی بات پاکستانی حکام سے کہنی ہوگی تو وہ اس سفارتی انداز میں کہیں گے۔
چین پاکستان کی مجبوری کو سمجھتا ہے
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کی اسٹریٹجک مجبوری کو سمجھتا ہے اور اسے پتہ ہے کہ ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے اس لیے وہ کوئی سخت ردعمل نہیں دے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "چین کو معلوم ہے کہ اس طرح کی دہشت گردانہ کارروائی پاکستان دشمن عناصر کر رہے ہیں جو چین کے بھی دشمن ہیں۔‘‘
چینی سرمایہ کاری سے بلوچستان میں غصہ کیوں؟
انتظامی مجبوریاں
حکومت اس تاثر کو مسترد کرتی ہے کہ بینجگ نے غصے میں یہ اجلاس ملتوی کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس پر موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وزیر اعظم کی اپنی مصروفیات ہیں اور پاکستان افغانستان پر کانفرنس منعقد کرہا ہے، تو انتظامی مصروفیات یا مجبوریوں کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوا ہوگا۔ چین اور پاکستان کے بہت گہرے تعلقات ہیں اور ایسے حملوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔ تاہم پاکستان ان حملوں کی پوری تحقیقات کررہا ہے اور چین شہریوں کی سیکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔‘‘