سیمی فائنل میں پاکستان کی ہار : بےجا تنقید سے گریز
17 مئی 2010ماضی کے عظیم لیگ بریک گگلی باؤلر عبدالقادر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جس طرح پاکستان نے آسٹریلیا کو لوہے کے چنے چبوائے اور ٹیم شیروں کی لڑی اس پر فخر کیا جانا چاہئے۔ عبدالقادر کا کہنا تھا کہ کوچ یا کپتان پر تنقید کرنے کی بجائے، ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
ابتدائی دونوں ورلڈکپ فائنل کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کے رکن اور سابق کپتان شعیب ملک سے جب پو چھا گیا کہ 191رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے اور کھیل کے37 اوورز تک میچ پر حاوی رہنے والی ٹیم صرف تین اووروں میں ہی کیسے ہا رگئی، تو ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کی بیٹنگ باؤلنگ، فیلڈنگ، کمٹمنٹ سب کچھ درست تھے البتہ آخری اوور لیفٹ ہنڈرز ہسی کے سامنے آف سپنر سعید اجمل کو دینے سے پہلے عبدالرزاق کے بارے میں بھی غور کرنا چاہئے تھا۔
متنازع فاسٹ باؤلر شعیب اختر کا کہنا تھا کہ ’’آسٹریلیا سے اس شکست پر میرا دل دکھا ہے مگر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ پاکستان نے مشکل حالات میں سیمی فائنل تک رسائی ممکن بنائی۔ ایسی ناکامی پر حسب روایت کھلاڑیوں، مینجمنٹ کپتان یا بورڈ کی رسہ کشی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ غیر ملکی ٹیمیں پہلے ہی یہاں کا دورہ نہیں کر رہیں اور پاکستان کرکٹ زوال کا شکار ہے۔اگر ہم نے دوبارہ ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کوشش کی تو ایشیا کپ اور آئندہ آنے والے مقابلوں میں بھی اچھے نتائج بر آمد نہیں ہوں گے۔‘‘
کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دوہراتی ہے۔1987ء ورلڈ کپ سیمی فائنل میں سلیم جعفر کے اوور میں سٹیوا کے بنائے گئے 18 رنز لاہور میں پاکستان کی شکست کا سبب بنے تھے ۔13برسوں بعد سینٹ لوشیا کے سیمی فائنل میں سٹیوا کی جگہ مائیکل ہسی آسٹریلیا کے ہیرو بنے جبکہ سلیم جعفر کی طرح سعید اجمل پاکستان کے ولن ٹھہرے۔ کیا واقعی سعید اجمل اس ناکامی کے تنہاذمہ دار ہیں ؟
اس بارے میں پاکستانی فاسٹ باؤلر شعیب اختر کہتے ہیں: ’’کرکٹ میں کسی بھی باؤلر کی پٹائی ہو سکتی ہے۔ وقار یونس دنیا کے عظیم ترین بائولر تھے مگر اجے جدیجا کے ہاتھوں انہیں بھی ایک بار مار پڑی۔ اب ہمارے لئے یہ دیکھنا اور سوچنا زیادہ ضروری ہے کہ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کا باؤلنگ اٹیک کس نوعیت کا ہو گا کیونکہ اس طرح کے اٹیک کے ساتھ ہم ٹونٹی20 تو کھیل سکتے ہیں البتہ امسال پاکستان نے 12ٹیسٹ اور 20 ون ڈے بھی کھیلنا ہیں جو باکل مختلف کھیل ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ویسٹ انڈیز میں انگلینڈ کی فتح پر منتج ہوئے ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ کو فاسٹ باؤلرز جبکہ پاکستان، بھارت اور سری لنکا کو سپنرز پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنا مہنگا پڑا۔ فاتح انگلینڈ کا تین فاسٹ باؤلرز اور دو اسپنرز پر مشتمل بائولنگ اٹیک دوسروں سے کہیں زیادہ متوازن تھا ۔سابق لیگ بریک گگلی باؤلر عبدالقادر سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا صرف ایک فاسٹ باؤلر محمد عامر کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کتنا دانشمندانہ تھا ؟اس پر عبدالقادر کا کہنا تھا کہ تین سپنرز سمیع اور آصف کے پٹنے پر مجبورا کھلائے گئے۔
رپورٹ : طارق سعید، لاہور
ادارت : عاطف توقیر