’سیکولر بھارت کی خاطر‘ اورن دھتی رائے بھی سراپا احتجاج
5 نومبر 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے پانچ نومبر کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ معروف دانشور اور مصنفہ ارون دھتی رائے نے جمعرات کے دن بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپرس‘ میں اپنے ایک آرٹیکل میں تفصیل سے بیان کیا کہ وہ اپنا ایوارڈ واپس کیوں کر رہی ہیں۔ اس خاتون مصنفہ نے فخر کے ساتھ کہا کہ وہ خوش ہیں کہ وہ اس ایوارڈ سے دستبردار ہوتے ہوئے ایک ایسی تحریک کا حصہ بن رہی ہیں، جو بھارت کے سیکولر تشخص کو بچانے کی کوشش میں ہے۔
ارون دھتی رائے کو ان کے ناول ’گاڈ آف سمال تھنگز‘ پر 1997ء میں بکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ قبل ازیں 1989ء میں ایک فلم کی اسکرین رائٹنگ پر انہیں 1989 ہی میں نیشنل ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ پچپن سالہ رائے نے اپنے مخصوص جذباتی انداز میں لکھا ہے کہ لوگوں کو زندہ جلا دینے، گولیاں چلانے اور قتل عام کرنے کے عمل کے لیے ’عدم برداشت‘ کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں ہے۔
بھارت کی موجودہ معاشرتی اور سیاسی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے رائے کا کہنا تھا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے علاوہ دلَت اور آدی واسی کمیونٹی بھی ایک مسلسل خوف کے سائے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ سن 2014 کے انتخابات میں ہندو قوم پرست پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت دراصل ایک اشارہ تھا کہ مستقبل میں یہ سب کچھ ہو گا۔
اس خاتون دانشور کا مزید لکھنا تھا، ’’مجھے انتہائی خوشی ہے کہ میں اِس تحریک کا حصہ بن رہی ہوں اور مجھے انتہائی شرم ہے کہ میرے ملک میں کیا کیا ہو رہا ہے۔ بھارت میں نسلی بنیادوں پر شروع ہونے والے تشدد اور مذہبی عدم برداشت کے خلاف ملکی دانشوروں، فن کاروں، سنگتراشوں، فلمی صنعت سے وابستہ شخصیات اور سائنسدانوں نے ایک تحریک شروع کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مناسب اقدامات کرے۔ اس تناظر میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سو کے قریب نمایاں شخصیات احتجاجی طور پر اپنے نیشنل ایوارڈز واپس کر چکی ہیں۔
بھارت میں حالیہ عرصے کے دوران عدم برداشت کی وجہ سے شروع ہونے والی تشدد کی تازہ لہر میں مسلمانوں کے علاوہ سکیولر نظریات رکھنے والے ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ گائے کے گوشت کھانے یا اسے ذبح کرنے کے کئی مبینہ واقعات میں مشتعل ہندوؤں نے دو مسلمان کو ہلاک بھی کر چکے ہیں۔