سیہون حملے کے بعد پاکستان میں ’سو دہشت گرد‘ ہلاک کر دیے گئے
17 فروری 2017سیہون سے جمعہ سترہ فروری کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی سکیورٹی فورسز نے کل جمعرات کی شام شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں ہونے والے خود کش بم حملے کے بعد سے جمعے کی رات تک ملک کے مختلف حصوں میں آپریشن کرتے ہوئے ’سو سے زائد دہشت گردوں‘ کو ہلاک کر دیا۔
اس بم حملے میں کم از کم 20 بچوں سمیت 88 افراد ہلاک ہوئے جبکہ بیسیوں زخمی ہیں، جن میں سے متعدد کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ اس بہت ہی ہلاکت خیز بم دھماکے کی ذمے داری عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔
پاکستان: افغانستان سے 76 مطلوب دہشتگردوں کی حوالگی کا مطالبہ
'ہمیں کیا برا تھا مرنا ، اگر ایک بار ہوتا‘
اب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اس حملے کے رد عمل میں جو کارروائیاں کی ہیں، ان کے بعد اے ایف پی کے مطابق یہ خوف بھی پیدا ہو گیا ہے کہ عسکریت پسند مزید خونریز حملے کرنے کی کوششیں کریں گے اور یوں پاکستان میں ممکنہ طور پر ہلاکت خیز دہشت گردی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آ سکتی ہے۔
سیہون بم حملے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ یہ پاکستان میں کافی عرصے بعد ہونے والا کوئی پہلا دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا بلکہ گزشتہ دنوں کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں عسکریت پسند یکے بعد دیگرے کئی بڑے بم حملے کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، جن سے عوام میں ایسے بم دھماکوں کے ایک پورے نئے سلسلے کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔
سیہون میں حملے سے چند ہی روز قبل صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں صوبائی اسمبلی کی عمارت کے سامنے بھی ایک بڑا خود کش بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں 15 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے اور اس حملے کی ذمےد اری تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کر لی تھی۔
خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا، پاکستانی فوجی سربراہ
پاکستان میں ایک اور خود کش حملہ، ستر سے زائد ہلاک، کئی زخمی
پاکستانی فوج کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ سیہون میں کل شام کے حملے کے بعد سے ملک میں ’سو سے زائد دہشت گردوں‘ کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور سکیورٹی دستے ملک کے مختلف حصوں میں اپنے آپریشن ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق جمعرات کی رات سے لے کر جمعے کی شام تک سلامتی کے ذمے دار دستے صرف سندھ میں کم از کم 18 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کر چکے تھے جبکہ شمال مغربی پاکستان میں ایسے عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد 13 بتائی گئی ہے۔