شادی بندھن یا مجبوری؟
2 مارچ 2021شادی شدہ افراد جنہیں سوشل میڈیا پر ازراہ تفنن شادی زدہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس تعلق میں آجانے کے بعد ایک دوسرے کے اچھے برے کے برابر شریک ٹھہرتے ہیں۔
بہت سے نوجوان ایرانی باشندے ’عربی میں شادی‘ کی تقریب کے خلاف
بھارت میں شادیوں کی رجسٹریشن لازمی بنا دینے کی سفارش
لوگ ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں ایک دوسرے کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کہیں کوئی بیوی، شوہر سے سارے خرچے اور ذمہ داریاں پوری کرواتی ملتی ہے، تو کہیں شوہر بیوی سے گھر کے سارے کام، اپنی اور ماں باپ کی خدمت، اولاد اور نام ناموس کا سکھ سب کچھ اٹھاتا نظر ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ دونوں ہی اپنے رشتے داروں اور دوستوں میں اس تعلق کی منفیت کا پرچار کرنے سے بھی کہیں نہیں چوکتے۔ غیر شادی شدہ افراد کے سامنے مظلوم بن کر شادی کے بعد کی زندگی کے عذاب گنواتے نہیں تھکتے۔ بیویوں کو دوسروں کے شوہر زیادہ ذمہ دار اور شوہروں کو ہر دوسری عورت زیادہ حسین لگتی ہے جبکہ اپنی بیوی سے ایسی ایسی شکایتیں کہ الامان۔
مرد اس معاملے میں بھی عورت سے آگے ہی رہتے ہیں۔دوسری مطلوب عورتوں کے سامنے بیوی کی بدمزاجی، کھانا نہ پکا کر دینے کے گلے، جنسی آسودگی سے کوسوں دوری کا ڈرامہ اور ہر وہ برائی جس سے کسی بھی نئی عورت کی ہم دردی وصولی جا سکے تخلیق کرنے میں ایسی مہارت دکھاتے ہیں کہ اگلی کو لگنے لگے، بس وہی اس کے ہر دکھ کا دارو ہے۔
اگر وہ آپ سے صرف دوستی کے تعلق میں ہوں گے تو بھی میاں بیوی دونوں اس رشتے کے صرف برے پہلووں پر روشنی ڈالیں گے اورآپ کا پِتا لرزائے رکھیں گے۔
کوئی ہمت کر کے پوچھ ہی لے کہ بھئی ایسا ہی تنگ ہو تو اتنی عمر ساتھ میں کیوں گزار بیٹھے ہو تو ایسی ایسی مجبوریاں گنوائیں گے کہ آپ کو مزید ترس آنے لگے گا۔
ہمارے ایک دوست ہیں ان کا طریقہ واردات ہی یہ ہے کہ دو بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ کوئی موقع اور عورت ہاتھ سے جانے دینے کے حق میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ دو بیویوں کے ظلم و ستم اور زبردستی شادی ہونے کی کہانی اس رقت آمیزی سے سناتے ہیں کہ یقین کیے بغیر کوئی رہ نہیں سکتا۔ یہ طریقہ مردوں کی اکثریت اپناتی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔
کبھی آپ نے گلی کوچوں اور سڑکوں کے کنارے ان فقیروں کو دیکھا ہے جو جھوٹے مرض کا سرٹیفیکیٹ تھامے لوگوں سے بھیک کے طالب ہوتے ہیں۔ جھوٹے قصے سنا کر مظلوم بننے والوں کا حال بھی کچھ ویسا ہی ہوتا ہے ۔ وہ فقیر بھی شام میں خالی ہاتھ گھر نہیں جاتے اور ایسے لوگ بھی۔۔۔
یوں بھی ہمارے معاشروں میں شادی شدہ شخص کی سہیلی اور شادی شدہ عورت کا کوئی خفیہ معاشقہ کسی نہ کسی طرح جسٹیفائیڈ سمجھے جاتے ہیں۔
عورت کے معاملے میں سختی زیادہ ہوتی ہے اور بدکرداری کا الزام لگا کر اسے طلاق تک کے معاملات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے اور زیادہ روایتی معاشروں میں کبھی کبھار غیرت کے نام پر قتل بھی ہونا پڑجاتا ہے۔ لیکن مردوں کو یہاں بھی بہت آسانیاں میسر ہیں عموماً ’’اچھی بیویاں‘‘ انہیں معاف کر دیتی ہیں۔ کبھی بچوں کی خاطر ،کبھی لوگوں کی خاطر تو کبھی اللہ کی رضا کے لیے ۔۔
اور یہ شوہر ایسے نا شکرے ہیں کہ بیویوں کے ظلم وستم پر لطیفے گھڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ بیوی سے اظہار محبت کو ایسی جگہ پر کھجانا بتایا جاتا ہے جہاں کھجلی نہ ہو رہی ہو۔ شِو کمار بٹالوی کی نظم کا ایک مصرع ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ان پر فٹ بیٹھتا ہے۔۔
"نی میں اک نا شکرا یار بنایا۔"
اصل مصرع ہے" نی میں اک شِکرا یار بنایا"
جبکہ عورتیں بہت کم مردوں کے رویوں پر لطیفے بناتی ہیں آپ نے سوچا ہے کبھی عورتیں ایسا کیوں نہیں کرتیں؟
ظاہری سی بات ہے جس پر درحقیقت گزرتی ہے وہ اپنی تکلیف کو تکلیف کےساتھ ہی بیان کرے گا۔ جن پر گزرتی نہیں وہ مبالغہ آرائی کریں گے اور تخیل کی پرواز تو انسان کو گھٹی میں ملی ہے۔
یہ رویے سینکڑوں سوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ آخر کیوں ! آپ اپنے شریک حیات کی برملا تعریف نہیں کرسکتے۔
آخر ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا کہیں تذکرہ کیوں نہیں ہوتا۔ کیوں شادی جیسے رشتے کے مقابلے میں عارضی رشتوں کی تاک میں رہا جاتا ہے ۔
اگر آپ اپنے پارٹنر سے واقعی اس قدر نا خوش ہیں تو اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔
کم ازکم وہ بھی اپنے لیے بہتر سے بہترین کا معاملہ طے کرسکے۔ کیوں آپ اصل تعریف کے حق دار کو اس کا حق دینے سے جھجھکتے ہیں۔