شام: داعش نے دو بڑے محاذ دوبارہ کھول دیے
25 جون 2015شامی شہر کوبانی ترک سرحد کے قریب واقع ہے جبکہ داعش کے خلاف جنگ میں اس شہر پر قبضہ علامتی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ قبل ازیں کرد ملیشیا امریکی فضائیہ کی مدد سے داعش کی چار ماہ کی مزاحمت کے بعد رواں سال جنوری میں اس شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ شام کے جنگی حالات پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق آئی ایس ( داعش) ایک خودکُش کار حملے کے ذریعے کوبانی میں دوبارہ داخل ہوئی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ داعش کی طرف سے یہ ایک ایسا حملہ تھا، جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ ابھی تک یہ تنظیم وہاں دو خودکش حملے کر چکی ہے اور لڑائی میں کم از کم تئیس کرد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں وہ کرد عسکریت پسند بھی شامل ہیں، جو داعش کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ مقامی کرد عہدیدار ادریس نصان نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کے جنگجو شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’داعش کے دہشت گرد الجھن پیدا کر رہے ہیں اور اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کردوں کو فرار ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘
دریں اثناء ترک وزارت خارجہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے کہ داعش کے عسکریت پسند کوبانی پر حملہ کرنے کے لیے ترکی کے راستے اس شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ ترک وزارت خارجہ کے مطابق یہ الزام ’سراسر جھوٹ‘ ہے۔ ترک حکام کے مطابق حملے کے بعد علاج کے لیے تریسٹھ زخمی ترکی لائے گئے تھے، جن میں سے ایک بچے سمیت دو ہلاک ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب داعش کے عسکریت پسندوں نے گزشتہ شب کارروائی کرتے ہوئے الحسکہ شہر کے دو مضافاتی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ الحسکہ شام کے شمال مشرق میں ایک کرد اکثریتی صوبے کا دارالحکومت ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس علاقے میں جمعرات کی صبح تک لڑائی جاری تھی اور اس میں کم از کم تیس حکومت کے حمایتی جبکہ بیس جہادی ہلاک ہو چکے ہیں۔ الحسکہ کے آدھے حصے پر کرد ملیشیا جبکہ آدھے پر حکومتی فورسز کا کنٹرول ہے۔ داعش کے عسکریت پسند اس شہر میں دوبارہ داخل ہونے کوشش کر رہے ہیں جبکہ رواں ماہ کے آغاز پر انہیں حکومتی فورسز نے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
دریں اثناء شام کے جنوبی شہر اور صوبائی دارالحکومت درعا میں بھی حکومتی فورسز پر حملے شروع کر دیے گئے ہیں۔ اس شہر میں حکومت مخالف باغیوں اور جہادی گروپ النصرہ فرنٹ نے مل کر حملوں کا آغاز کیا ہے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب اس علاقے میں باغی گروپ پیش قدمی کرتے جا رہے ہیں۔ درعا کی کارروائی میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور تیرہ زخمی ہوئے ہیں۔
شام میں اسد حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز مارچ دو ہزار گیارہ میں ہوا تھا اور تب سے اب تک وہاں دو لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔