شام میں امن عمل کی ترکی اور روس کی نئی کوشش
16 دسمبر 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماسکو حکومت شام میں امن مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کی خاطر انقرہ حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔
کیا یہ صدر پوٹن کی فتح ہے؟ حلب کی جنگ میں روس کا کردار
شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے ترکی کے ایران اور روس سے رابطے
روس شامی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، موگرینی
جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر پوٹن نے کہا کہ وہ اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کے ساتھ مل کر شام میں قیام امن کی کوششیں کر رہے ہیں۔
پوٹن کا کہنا تھا کہ نئے امن مذاکرات کا مقصد شام بھر میں جنگ بندی کو ممکن بنانا ہو گا۔ پوٹن نے جمعے کے دن ٹوکیو میں صحافیوں کو بتایا کہ اگر اس نئے سلسلے کا آغاز ہوا تو اس سلسلے میں پہلی دور قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں منعقد کیا جائے گا۔
پوٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نئے مذاکراتی دور میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں جنیوا میں جاری مذاکرات کی تجاویز کو بھی شامل کیا جائے گا۔ شام میں قیام امن کی خاطر جنیوا میں بھی ایک مذاکراتی دور چل رہا ہے۔
پوٹن نے کہا، ’’ہمارا مقصد ہے کہ ہم ایک ایسے معاہدے پر متفق ہو سکیں، جس کے تحت شام بھر میں جنگ بندی ممکن ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم شام میں فعال مسلح باغی گروہوں سے بھی سنجیدہ مشاروت کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ باغی نمائندوں سے مشاورت مین ترک حکومت تعاون فراہم کر رہی ہے۔
پوٹن کا کہنا تھا کہ ترک صدر نے اتفاق کیا ہے کہ شامی حکومت اور باغی رہنماؤں کو تجویز کیا جائے گا کہ شام میں امن عمل کی خاطر مذاکرات کا سلسلہ ایک نئے مقام پر شروع کیا جائے۔ پوٹن نے اصرار کیا کہ شامی خانہ جنگی کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ حلب میں شامی فورسز کی کامیابی کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ شام کے پانچ سالہ تنازعے کے باعث اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق کم ازکم تین لاکھ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے مہاجرین کا ایک بڑا بحران بھی پیدا ہوا ہے، جس کی لپیٹ میں یورپ بھی آیا ہوا ہے۔
روسی صدر پوٹن جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے کے ساتھ دو روزہ سمٹ میں شرکت کے لیے جاپان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جمعے کے دن دونوں رہنماؤں نے عندیہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین عشروں پرانے سرحدی تنازعات کے خاتمے کی خاطر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
بحرالکاہل کے سمندری علاقے میں واقع جنوبی کُریل کے جزائر پر قریب 65 برس پہلے تک جاپان کا قبضہ تھا۔ جاپان ان جزائر کو اپنے شمالی علاقے قرار دیتا ہے جبکہ روس کا دعویٰ ہے کہ یہ جزیرے اس کے ریاستی علاقے کا حصہ ہیں۔