’شام میں امن منصوبے کے باوجود خونریزی جاری ‘
9 نومبر 2011جنیوا میں صحافیوں سے بات چیت میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان روینا شام داسانی نے بتایا کہ دمشق حکومت اب بھی مخالفین کے خلاف جابرانہ کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی شامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز نے مظاہروں کے مرکزی شہر حمص پر اپنی گرفت مضبوط تر کر دی ہے۔ داسانی نے بتایا: ’’ جب گزشتہ ہفتے شامی حکومت نے عرب لیگ کے اشتراک سے قیام امن کے منصوبے پر دستخط کیے تب سے اب تک مزید 60 افراد کے سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاکت کی اطلاعات ہیں، ان میں سے 19 افراد اتوار کو عید الاضحیٰ کے موقع پر مارے گئے۔‘‘
شامی حکومت نے دو نومبر کو عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ کے سامنے اعلان تھا کہ وہ شہروں سے فوج واپس بلا رہی ہے، سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا اور اپوزیشن سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ عرب لیگ میں شام کے نمائندے کا کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں بہت سے اقدامات اٹھاچکی ہے۔ اس ضمن میں عید الاضحیٰ کے روز قریب پانچ سو قیدیوں کی رہائی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کئی عرب اور مغربی ممالک شام میں قیام امن کے لیے دمشق حکومت کے اقدامات سے مطمئن نہیں
قطر نے ہفتے کو عرب لیگ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانس کا کہنا ہے کہ شام میں مخالفین کو دبانے کا نیا سلسلہ چل پڑا ہے۔ شام کے تیسرے سب سے بڑے شہر اور حکومت مخالف مظاہروں کے مرکز حمص میں پیر سے فوج کی دوبارہ تعیناتی کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے حمص کے ایک شہری سمیع کے حوالے سے بتایا: ’’ میں اپنے والد سے ملنے وہاں گیا تھا، وہاں باب امرو ضلع میں فوج اور ملیشیا کے بہت سے اہلکار تعینات ہیں اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘
واضح رہے کہ شام کی صورتحال سے متعلق خبروں کی تصدیق خاصی مشکل ہے۔ وہاں کا مقامی میڈیا آزاد نہیں اور دمشق حکومت بہت سے غیر ملکی صحافیوں کے شام میں داخلے پر پابندی عائد کر چکی ہے۔ گزشتہ روز عرب لیگ نے کہا تھا کہ شامی حکومت نے ملک میں مبینہ امریکی مداخلت کو بد امنی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور اس سلسلے میں مدد کی درخواست کی تھی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل