شامی امن مذاکرات ’’ مفادات کی جنگ‘‘
31 جنوری 2016مارچ 2011ء میں شامی صدر بشارالاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت بہت جلد ہی مسلح تحریک میں تبدیل ہوئی اور پھر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی۔ شامی تنازعے نے خطے اور عالمی طاقتوں کو ایک نئے مسئلے سے دو چار کر دیا جبکہ دوسری جانب تشدد پر آمادہ جہادی گروپوں نے ملک میں پھیلی افراتفری کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ آج دیکھا جائے تو شامی جنگ عالمی سیاست اور خطے میں طاقت کی جنگ کی علامت بنتی جا رہی ہے۔
ایک طرف روس، ایران اور حزب اللہ ہیں، جو بشارالاسد کی سرعام حمایت کرتے ہوئے عسکری و مالی تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اگر مغربی اقوام، ترکی اور عرب سنی ممالک کی بات کی جائے، تو یہ قوتیں بشارالاسدکو اس فساد کی جڑ قرار دیتی ہیں اور اعتدال پسند باغیوں کی حمایت کرتی ہیں۔ تاہم شامی تنازعے سے جڑے تمام فریقین ایک بات پر متفق ہیں کہ ان کا ایک مشترکہ دشمن ہے اور وہ ہے ’اسلامک اسٹیٹ‘ ہے۔
دوسری جانب عالمی طاقتیں اپنے اس موقف کو بار بار دہرا رہی ہیں کہ وہ اس تنازعے کو سیاسی انداز میں حل کرنا چاہتی ہیں۔ اس سلسلے میں نومبر 2014ء میں آسڑیا کے دارالحکومت ویانا میں عالمی طاقتوں نے امن عمل کو تیز تر بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اجلاس ہوا تھا، جس کے بعد سکریٹری جنرل بان کی مون نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ جنوری 2016ء میں شامی تنازعے کا حل تلاش کر لیا جائے گا۔ تاہم دمشق حکومت اور حزب اختلاف کے مابین پائے جانے خدشات کو ابھی تک دور نہیں کیا جا سکا ہے اور اسی وجہ سے جنیوا میں جاری تازہ مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کے امکانات زیادہ ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ روس ایک جانب تو دمشق حکومت کے مخالفین کو فضائی حملوں سے نشانہ بنا رہا ہے تاہم دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بشارالاسد کو مزید اقتدار میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ ماسکو حکومت صرف یہ یقین دہانی چاہتی ہے کہ بشارالاسد کے بعد بھی مشرق وسطٰی میں روسی مفادات کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے۔ اسی طرح دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا اور دیگر اسد مخالف ممالک شامی میں تبدیلی دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں بھی اپنے موقف میں نرمی لانی ہو گی۔