شمال مغربی شام میں لاکھوں افراد پانی سے محروم
14 جولائی 2024اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر او سی ایچ اے کے مطابق شام میں پانچ ملین سے زائد انسان، جن میں سے زیادہ تر اندرون ملک ہی بے گھر ہو چکے ہیں، ملک کے شمال اور شمال مغرب میں ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جن پر کوئی حکومتی کنٹرول نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد اپنے زندہ رہنے کے لیے امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے لاکھوں شامی باشندوں کی رہائش کیمپوں میں ہے۔ انہی کیمپوں میں سے ایک کے ایک رہائشی حسین الناسان شدید گرمی میں اپنے خاندان کو پانی مہیا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس لیے کہ ایسی مجبور انسانوں کی مدد کے لیے رقوم ختم ہو چکی ہیں اور شامی باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی علاقوں میں اپنے گھر بار سے محروم ہو جانے والے شہری جن کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ان میں حفظان صحت کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔
الناسان نے ترک سرحد کے نزدیک سرمدا کے علاقے میں قائم بے گھر شہریوں کے ایک کیمپ سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''پانی زندگی ہے اور اب ہمیں پانی سے محروم کیا جا رہا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمیں آہستہ آہستہ مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ اس وقت 30 سالہ حسین الناسان دو بچوں کے باپ ہیں اور ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے بے گھر ہیں۔
شام کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ میں شدید کٹوتی
اقوام متحدہ کے مطابق، 13 سال کے تنازعے کے بعد، بین الاقوامی فنڈنگ کی کمی نے شمال مغربی شام میں نقل مکانی پر مجبور شہریوں کے کیمپوں میں پانی، فضلے کو ٹھکانے لگانے اور صفائی ستھرائی جیسی بنیادی خدمات کی فراہمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ شام میں پانچ ملین سے زائد بے گھر انسان جن علاقوں میں رہتے ہیں، ان پر دمشق حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ایسے ہی ایک کیمپ کے رہائشی افراد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے کیمپ میں نل کا پانی دستیاب نہیں ہے اور امدادی تنظیموں نے فنڈنگ میں کٹوتیوں کی شکایت کرتے ہوئے متاثرہ علاقے اور کیمپ تک ٹرکوں کے ذریعے پانی پہنچانا بند کر دیا ہے۔
حسین الناسان اخراجات کو کم کرنے کے لیے تین دیگر خاندانوں کے ساتھ پانی کے ٹینک شیئر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''پانی کو جمع کر کے اسے محفوظ کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے جبکہ ہم پانی خریدنے کے متحمل بھی نہیں ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے اندازے
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی امور کے رابطہ دفتر (OCHA) نے اے ایف پی کو بتایا کہ شمال مغربی ادلب کے علاقے میں تقریباً 571,000 بے گھر انسانوں کے لیے بنائے گئے تقریباً 460 کیمپوں میں اقوام متحدہ کی شراکت دار تنظیموں کی طرف سے پانی، صفائی اور حفظان صحت کی کوئی امداد نہیں پہنچ رہی۔ اس دفتر نے ایک بیان میں متنبہ کیا ہے، ''فنڈنگ میں اضافے کے بغیر، تقریباً 165,000 لوگوں کی میزبانی کرنے والے 111 اضافی کیمپ ستمبر کے آخر تک اس طرح کی امداد سے بالکل کٹ جائیں گے۔‘‘
OCHA نے کہا کہ شمال مغربی شام کی تقریباً 80 فیصد آبادی کو پانی اور حفظان صحت کے شعبے میں امداد و معاونت کی ضرورت ہے، جس میں ''پینے کے صاف پانی تک رسائی، فضلے کو ٹھکانے لگانے اور صفائی کی سہولیات کی بحالی‘‘ جیسے اہم معاملات بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود ان اہم شعبوں کو مسلسل'' نظر انداز کیا جاتا ہے۔‘‘ ان شعبوں کو سن 2024 کی پہلی سہ ماہی میں صرف دو فیصد ضروری فنڈز حاصل ہوئے تھے۔
کیمپوں میں بیماریاں
شام کے شدید بحران زدہ علاقے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کاموں کے رابطہ کار ڈیوڈ کارڈن نے کہا، ''شمال مغرب میں تو کیمپوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔‘‘ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''مخدوش الحال کیمپوں میں رہنے والے خاندانوں کو شدید گرمی ، گھٹن اور حبس کا سامنارہتا ہے۔ صفائی کی کوئی سہولت میسر نہ ہونے کے سبب ان کیمپوں میں کوڑے کے ڈھیر لگ چکے ہیں اور بچے بیمار ہو رہے ہیں۔‘‘
ادھر شام کے اسی شمال مغربی حصے میں سرگرم مقامی اداروں کی ایک ذیلی تنظیم رسپانس کوآرڈینیشن نے تصدیق کی کہ لاکھوں بے گھر انسانوں کے ان کیمپوں میں جلدی بیماریاں پھیل رہی ہیں، درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، پانی کی شدید کمی ہے اور جلد کے امراض کا پھیلاؤ بہت پرہشان کن ہے۔
سرمدا میں ایک موبائل کلینک چلانے والے ڈاکٹر فدا الحمود نے بتایا، ''پانی کی قلت ہونے اور نکاسی آب کا نظام نہ ہونے کے سبب ان کیمپوں میں 90 فیصد سے زیادہ مکین جلد پر خارش کے مریض ہیں۔‘‘
حیات تحریر الشام نامی جہادی تنظیم کے زیر اثر ادلب کے اس علاقے کے ایک مقامی اہلکار، فراس کردوش نے کہا کہ حکام ''متبادل حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسے انسانون کے لیے امدادی رقوم روک لی گئیں، تو یہ عمل ''انسانی تباہی‘‘ کا باعث ہو گا۔
ک م/ م م ( اے ایف پی)