شنگھائی تعاون تنظیم کا اگلا سربراہی اجلاس پاکستان میں
5 جولائی 2024ایک ایسے وقت جب شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رہنماؤں نے آستانہ میں ہونے والے اجلاس کے دوران (امریکہ کی قیادت والے) موجودہ عالمی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے آواز اٹھائی ہے، پاکستان نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی ''بلاک'' کی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا۔
بھارت، چین وزرائے خارجہ کے مابین سرحدی تنازع پر تبادلہ خیال
آستانہ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں روس اور چین کے رہنماؤں نے ''زیادہ منصفانہ اور شفاف'' عالمی نظام کا مطالبہ کیا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے ایک بیان میں اس تاثر کو مسترد کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کسی بھی بلاک کا حصہ بننے کے لیے اس سکیورٹی کلب میں شامل ہوا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے کیا کہا؟
جمعرات کے روز دفتر خارجہ کی ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان چین اور روس کے بلاک میں شامل ہو گا، تو دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا، ''سب سے پہلے تو میں یہ واضح کرنا چاہوں گی کہ پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ ہم کسی بھی بلاک کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم بلاک کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔''
آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس شروع
واضح رہے کہ ایس سی او کی حالیہ اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ''بیرونی مداخلت کے خاتمے'' کا مطالبہ کیا۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی امریکہ ک طرف اشارہ کرتے ہوئے ''خطے میں بیرونی فوج کی موجودگی کو ختم'' کرنے کے لیے ایک نئے ''یورو ایشیا سکیورٹی معاہدے'' کی تجویز پیش کی ہے۔
بھارت میں ایس سی او سمٹ میں پاکستان کی شرکت کی تصدیق
چین، روس، پاکستان اور بھارت سمیت خطے کے دس ممالک ایس سی او کے اہم رکن ہیں، جسے امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
'اچھا مہمان ہو تو اچھی میزبانی بھی ہوگی'، بھارتی وزیر خارجہ
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے زور دے کر کہا کہ ''ہم تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام، باہمی اعتماد اور ایک دوسرے کے ملکی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر اچھے تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔''
بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت: امیدیں اور امکانات
ان کا مزید کہنا تھا کہ ''پاکستان کئی سالوں سے ایس سی او کا رکن ہے۔ یہ ایک کثیر الجہتی تنظیم ہے۔'' انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایک علاقائی تنظیم ہے جو علاقائی تعاون اور روابط کو فروغ دینے اور سلامتی، اقتصادی اور رابطے جیسے مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنے پر مرکوز ہے۔
روس کے صدر پوٹن اور پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی دو طرفہ ملاقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ''پاکستان اور روسی فیڈریشن کے درمیان تعلقات کا ایک مثبت رخ ہے۔ دونوں ممالک دوطرفہ تعاون کے کئی پہلوؤں کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اقتصادی اور تجارتی معاملات، توانائی، روابط نیز افغانستان سمیت علاقائی مسائل پر مشاورت جیسے امور پر تعاون میں مزید اضافہ ہوا ہے۔''
بلاول بھٹو کے دورہ بھارت سے بند دروازے کھلنے کی امید؟
انہوں نے کہا، ''گزشتہ روز دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت، ہمارے دونوں ممالک کے باہمی فائدے کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی ہماری کوششوں کا ایک حصہ تھی۔''
ایس سی او کا اگلا اجلاس پاکستان میں
پاکستانی دفتر خارجہ نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ ایس سی او کی بدلتی رہنے والی اگلی صدارت پاکستان کے پاس ہو گی اور اس حیثیت سے تنظیم کے ہونے والے اگلے اجلاس کی میزبانی پاکستان کرے گا۔
دہلی میں شنگھائی گروپ کے سیکورٹی مشیروں کی میٹنگ میں پاکستان کی شرکت
انہوں نے کہا کہ ایس سی او کی 'کونسل آف سربراہان مملکت' تنظیم کا دوسرا اعلیٰ ترین فیصلہ ساز فورم ہے اور ''اکتوبر میں ایس سی او کے سربراہان حکومت کے اجلاس کی میزبانی پاکستان کرے گا۔''
ایس سی او کی دہلی میٹنگ میں پاکستانی وزیر خارجہ کو دعوت
رواں برس اکتوبر میں ایس سی او کا دو روزہ اجلاس 15 سے 16 اکتوبر کے درمیان ہونا طے پایا ہے۔
لیکن اکتوبر میں رکن ممالک کے رہنماؤں کی میٹنگ سے قبل وزارت کی سطح کا ایک اجلاس اور سینیئر حکام کی میٹنگوں پر مبنی کئی دیگر اجلاس ہوں گے۔ اس میں ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان مالی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانی تعاون پر توجہ دی جائے گی۔
کیا مودی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان جائیں گے؟
ایک سوال کے جواب میں محترمہ بلوچ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پاکستان ایس سی او کے رکن ممالک کے تمام سربراہان حکومت کو سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دے گا۔
انہوں نے مزید کہا، ''ہم امید اور توقع کرتے ہیں کہ اکتوبر میں ہونے والے سربراہان حکومت کے اجلاس میں ایس سی او کے تمام اراکین کی نمائندگی ہو گی۔''
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے کی دعوت دے گا۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین فی الوقت جس طرح کے رشتے ہیں، اس تناظر میں ایسے امکانات کم ہیں کہ مودی اس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔
البتہ اس بات کا امکان ہے کہ یا تو وہ اس میں ورچؤل طور پر شرکت کریں یا پھر وہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو اپنے نمائندے کے طور پر پاکستان بھیجیں۔آستانہ میں ہونے والے اجلاس میں بھی وزیر اعظم مودی کی نمائندگی ایس جے شنکر نے کی۔ وہ ملکی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے خود اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔
اس سے قبل بھارت کے ساحلی شہر گوا میں ہونے والی ایس سی او کی کانفرنس میں شرکت کے لیے اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھارت آئے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی آمد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مزید تلخ ہو گئے تھے اور کشمیر کے تعلق سے ان کے بیانات کو بھارت نے بڑی سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
اگر کوئی بھارتی نمائندہ اکتوبر میں ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان جاتا ہے، تو گزشتہ کئی برسوں کے بعد کسی بھی بھارتی رہنما کا یہ پاکستان کا دورہ ہو گا۔
حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ 'دائمی دشمنی' پر یقین نہیں رکھتا۔
انہوں نے مودی کی قیادت والی نئی حکومت پر زور دیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے بارے میں 'سنجیدگی سے غور و فکر' کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں اگر کوئی بھارتی رہنما اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرتا ہے تو اسے ایک بڑی سفارتی پیش رفت کے طور پر بھی دیکھا جائے گا۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)