شورش زدہ لیبیا تیل کی برآمدی صنعت بحال کرنے کی کوشش میں
14 اگست 2016کئی دہائیوں تک مطلق العنان حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے لیبیا مختلف عسکری گروہوں کے درمیان علاقوں پر قبضے کے لیے لڑی جانے والی لڑائیوں کی نذر ہو چکا ہے۔ معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کو پانچ برس ہو جانے کے باوجود وہاں اب تک کوئی فعال حکومت قائم نہیں ہو سکی اور نہ ہی ان عسکری گروہوں کو غیرمسلح کیا جا سکا ہے جب کہ اس تمام صورت حال نے لیبیا میں تیل کی صنعت کو ایک طرح سے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
لیبیا میں شدید سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ وہاں شدت پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مضبوط ہوتے نیٹ ورک اور تیل کی تنصیبات پر حملوں کی وجہ سے بھی تیل کی برآمد جمود کا شکار ہے۔
افریقہ میں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر کا حامل ہونے کے باوجود یہ ملک گزشتہ چند ماہ میں خام تیل کے کچھ ہی ٹینکر برآمد کر پایا ہے۔ لیبیا میں تیل کے ذخائر کا حجم قریب 48 ارب بیرل بتایا جاتا ہے۔
یکم اگست کو طرابلس میں قائم قومی تیل کمپنی (NOC) نے اعلان کیا کہ وہ خام تیل کی برآمد کو دوبارہ شروع کرنے جا رہی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبیا فی الحال عالمی منڈیوں میں تیل کی مکمل ترسیل کی سرگرمیوں سے خاصا دور ہے۔
توانائی کے حوالے سے مشاورتی ادارے ریپیڈان گروپ سے وابستہ ماہر اسکاٹ موڈیل کا کہنا ہے، ’’قومی تیل کمپنی کا ملکی بندرگاہوں سے تیل کی برآمد کا اعلان اپنی جگہ مگر ابھی ان بندرگاہوں کی مرمت اور دیگر امور کی وجہ سے اس سارے معاملے میں وقت درکار ہو گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’’لیبیا کی قومی تیل کپمنی کی جانب سے یہ اعلان کہ وہ خام تیل کی برآمدات کے لیے تمام ملکی بندرگاہیں استعمال کرے گی، فی الحال قابل عمل دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ اس کا دار و مدار وہاں جاری سیاسی عمل اور استحکام پر بھی ہے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ سن 2010ء میں لیبیا ایک اعشاریہ پانچ ملین بیرل یومیہ خام تیل برآمد کرتا تھا، تاہم اب یہ برآمدات تین لاکھ بیرل یومیہ تک گر چکی ہیں۔